منگل, نومبر 26, 2013

فسانۂ آزاد

مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“
فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان اس بارے میں ڈاکٹر انور سیدید لکھتے ہیں، ” فسانہ آزاد“ ناول کی تکنیک سے باہر کی چیز ہے۔ نہ پلاٹ ہے اور نہ واقعات ہیں۔ ربط اور تسلسل بھی نہیں ملتا ۔ بلکہ بعض واقعات تو ایسے ہیں کہ ان کا مرکز ی قصے سے کوئی تعلق نہیں اس ليے ان کے نکال دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اب جبکہ یہ ناول بھی نہیں تو اس کا شمار کونسی صنف ِ ادب میں ہوتا ہے اس بارے میں پریم پال اشک لکھتے ہیں، ” دراصل ”فسانہ آزاد “ناول اور افسانے کی کڑی ہے جس کو ہم دوسر ے لفظوں میں صحافتی ناول Serial fictionبھی کہتے ہیں۔ پریم پال کے اس رائے سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ فسانہ آزا د ایک صحافتی ناول ہے۔ اور جو مرتبہ اور مقام فسانہ آزاد کو حاصل ہوا وہ کسی اور صحافتی ناول کو نہ مل سکا
اسلوب
بقول ایک محقق ،
” فسانہ آزاد میں کردار بولتے ہیں انسا ن باتیں کرتے ہیں، خود سرشار نہیں۔ اس ليے ان کے اسلوب میں توانائی ، اوریجنیلیٹی اور اصلیت ہے۔“
تقلید
پروفیسر آل احمد سرور نے سرشار کی نثر کو فسانہ عجائب کی ترقی یافتہ صورت قرار دیا ہے۔ یعنی انھوں نے اپنی اس کتاب میں رجب علی بیگ سرور کی اسلوب کے حوالے سے تھوڑی بہت تقلید ضرور کی ہے۔ مثال کے طور پر ” دیکھتے کیا ہیں کہ ابر نور بہار ، نسیم مشکبار نے تما م شہر کو نمونہ ارم بنا دیا ہے۔“
اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ہمیں سرور کے اسلوب کا رنگ ملتا ہے۔ اس ليے اس بارے میں پریم پال اشک لکھتے ہیں،
” فسانہ آزاد میں جہاں تقلیدی انداز ملتا ہے وہاں صاف اور صحیح طور پر منشی رجب علی بیگ سرور کی جھلک نظر آتی ہے۔“
لیکن ناول میں سرشار کا اپنا تخلیقی رنگ بھی نمایاں ہے۔ پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔
بیگماتی زبان
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ یہی وہ درسگاہ تھی جہاں اسے انہیں زبان ورثے میں ملی۔ اور انہوں نے اپنے سینے میں سال ہا سال چھپائے رکھا اور آخر اتنے سالوں کے بعد اسے فسانہ آزاد کی شکل میں پیش کردیا۔

 ”اے میں کہی ہوں آخر یہ ماجراکیا ہے؟ منہ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا ۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں ۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر میر ے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے۔“
محاورے
سرشار نے ”فسانہ آزاد “ میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کئے ہیں مثلاً ابیر کرنا (بمعنی دیر کرنا) ، اسی اڑنا ( بمعنی ناچنا گانا) وغیرہ اس کے علاوہ سرشار نے ایک جگہ دودھ کھانا دودھ پینا کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہ محاورہ دلی تو کیا ہر جگہ دودھ پینا ہی بولا جاتا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ سرشار نے محاورہ دودھ خور دن سے لیا ہو یا پھردودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیاءخوردنی مثلاً ربڑی ، کھویا، برفی ، اور بالائی وغیرہ بنتی ہیں اور سرشار نے کسی کو دودھ کھانا ہی کہتے اور بولتے سنا ہوگا۔ ہاں لکھنو میں دودھ پینا بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے یہاں اس کا استعمال سو فیصد درست ہے۔ یا د رہے کہ محاورے ہمیشہ عوام اور خصوصاًعورتیں گھڑا کرتی ہیں۔ کتب میں محاورے کبھی نہیں ملتے ۔ اس ليے اس کا استعما ل بالکل صحیح مانا جا سکتا ہے۔
رنگینی و توانائی
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ اور وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجودآپ ایسے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی اور ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
” میاں آزاد تھوڑی دیر کے ليے آدمی بن گئے۔ مگر عشق کا حرف درمیان میں آیا اور ہوش اُڑ گئے ۔ جنوں سر پر چڑھ بیٹھا۔ اس سروجوئیار رعنائی اور گلبن گلزار دلربائی کا بوٹا سا قد آنکھوں میں پھر گیا۔ مطرب کی ناخن بازی اور اس خوش گلو کی نازک آواز یا د آگئی۔
مزاح
رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں اکثر کرداروں کو مضحک خاکوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے دراصل لکھنو معاشرے کی برائےوں کو نشانہ تضحیک بنایا ہے۔ ویسے تو ناول کے اکثر کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اورفسانہ آزاد کے تقریباً سارے کرداروں سے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کرئی گئی ہے۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کے ليے بطور خوجی کا کردار وضع کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک مزاحیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزاد اور خوجی کا یہ مکالمہ
خوجی :۔ (آزا د سے) اب طبیعت کیسی ہے؟
آزاد:۔ مر رہا ہوں
خوجی:۔ الحمد اللہ !
آزاد خدا کی مار تجھ پر ۔ دل لگی کا بھی کیا بھونڈا وقت ہاتھ آیا ہے۔ جی چاہتا ہے اس وقت زہر کھالوں
خوجی:۔ نوش جاں اور اس میں تھوڑی سی سنکھیا بھی ملا لیجئے گا۔
آزاد:۔ مر کم بخت
خوجی:۔ اب بوڑھا ہوں، کس پر ، مرنے کے دن تو لد گئے۔
آزاد نے کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کے ليے تشبیہات سے بھی کام لیا ہے۔ مثال کے طورپر۔ ”روز توند نکالے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ جیسے پن چکی کا دستہ یا گائو تکہ در بغل ۔ یہ توند ہے یا بے ایمان کی قبر ۔ “
مکالمہ نگاری
ناول نگا ر اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔ معیاری مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو ، کردار کی شخصیت اس کے مزاج اس کی علمی اور سماجی حیثیت کے مطابق ہو۔ اور شگفتگی کا عنصر پایا جائے ۔ ان خصوصیات کے حوالے سے جب ہم فسانہ آزاد کی مکالمہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سرشار کی مہارت اور قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سرشار کے اسلوب کی سب سےبڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے اور ہر ماحول کی گفتگو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کی گئی ہو۔ یعنی کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسی زبان اور لہجے میں بات کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی عالم دین بات کر رہا ہے تو اس کی گفتگو دینی حوالوں اور عربی الفاظ کی حامل ہوگی۔ اوراگر کوئی کردار معاشرہ کا گرا پڑا فرد ہے تو اس کی زبان میں ابتذال او ر بازاری پن ہوگا۔ مثلاً ایک بانکے کا مکالمہ دیکھیے ۔ سرشار نے کس مہارت سے اس کردار اور اس کی نفسیات کا تجزیہ کیا ہے۔ ”اجی حضرت دھمکانا کیسا ہم خود بلا میں پھنس گئے۔ خدا ہی بچائے تو بچیں ۔ صاف صاف یوں ہے کہ یہاں ہمارا ایک پٹیت ہے۔ کمیدان ہے بلا کا پھکیت ، ستم کا نکیت، قیامت کا ہاتھ ۔ اس سے ہم لاگ ڈانٹ ہوگئی۔ کل نو چندی جمعرات کو ہمیں درگاہ میں گھیرے گا۔ کوئی دوسو بانکوں کی جماعت سے ہم پر حربہ کرنے کاقصد ہے۔ اس طرف ساری خدائی ہے۔ادھر کچھ بھی نہیں۔ ہم سوچتے ہیں درگاہ نہ جائیں تو بانکپن پر حرف آتا ہے۔ جائیں تو کس برتے پر ۔ یار تم ساتھ چلو تو مزے ہیں ورنہ بے موت مرے۔“
خامیاں
فسانہ آزاد کی سب سے بڑی خامی تو یہ ہے کہ اس میں ربط اور تسلسل کی کمی ہے1878ءمیں ادوھ اخبار میں سرشار نے فسانہ آزاد قسط وار لکھنا شروع کیا ۔ سرشار نے اسے قلم برداشتہ لکھا۔ او ر یہی اس کی سب سے بڑی خامی بھی ہے۔ قلم برداشتہ لکھنے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کی واقعات ایک دوسرے سے خلط ملط ہو گئے۔ اس طرح واقعات اور کردار کے لحاظ سے یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات اور کرداروں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ کبھی کبھی تو اس کی الجھی ہوئی ڈور کا سرا بھی نہیں ملتا۔ اور نہ ہی ایک کڑی دوسری کڑی سے جڑی ہوئی نظرآتی ۔ کیونکہ سارا ناول بے اعتدالی میں لکھا گیا ہے۔ اس ليے اس میں ربط و تسلسل کا کوئی گزر نہیں۔ تکرار جو کہ کہانی کے ليے سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے اس قصے میں بار بار در آتی ہے۔ جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو پہلی جلد میں پتہ نہیں چلتا کہ افسانہ آزاد کا پلاٹ کیا ہے۔ اور اس کے کون کون سے اہم کردار ہیں۔ مصنف نے کئی ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا اصلی قصے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ قصہ مختلف واقعات کا ایک گورکھ دھندہ نظر آتاہے۔ اس کے علاوہ اس کے بعض نقاد حضرات خصوصاً منشی سجاد حسین جو سرشار کے ہم عصر ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری رقابت بھی رکھتے تھے۔ نے سرشار پر کچھ محاورات کے غلط استعمال پر اعتراض کیا ہے۔ مگر اعتراض کرنے سے پہلے لو گ بھول جاتے ہیں۔ کہ سرشار نے ناول کو قلم برداشتہ لکھا، لہٰذا اس طرح کے سہو ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اس ليے ان کو نظر انداز کر دینا ہی عقل مندی ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو سرشار کے اسلوب میں انفرادیت ہے۔ طنز و مزاح کی چبھن یا دلآزاری کی بجائے ہمدردی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ بقول سلیم اختر
لکھنوی معاشرت کی عکاسی
بقول حامد حسن قادری ،
” سرشار نے اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت ۔۔۔۔کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہے جیسے متکلم سینما کے پردہ پر چلتی ، پھرتی ، بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔“
لکھنوی معاشرت
سیاسی ، معاشی ، تہذیبی پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
١۔ تعیش پسندی
٢۔ مذہبی متعقدات کا ایک خاص رنگ
٣۔ علمی و ادبی مذاق
ان میں تعش پسندی سب پر غالب ہے۔ اس تعیش پسندی نے نوابین اودھ ، امراءجاگیرداروں اور خوشحال طبقہ کو عمومی طور پر عورتوں کا رسیا بنا دیا۔ طوائف کا کوٹھا شرفاءکے بچوں کی تربیت کا معزز ادارہ بن گیا۔ مینا بازار وں کی نمائش ، شاہدان بازاری کے سرعام رقص و رامش نے لکھنو کے مردوں سے بہادری کا جوہر چھین کر ان کو عیاش طبع بنا دیا۔ مرد جلوہ پرست اور عورتیں نمائش حسن سے سرشار طوائفوں سے چشمک کرنے لگیں۔ عاشق مزاجی ، وصال طلبی ، خوش قسمتی ، تماش بینی ، سطحیت ، ابتذال ، بازاریت اور شراب و شاہد کے علاوہ منشیات کا استعمال عام رجحان تھا۔ بھنگ ، چرس افیون اور گانجاکے نشہ میں عام لوگ سرشار نظر آتے تھے۔ اور یہی ساری معاشرت و طرز زندگی ہے جس کی عکاسی سرشار نے فسانہ آزاد میں کی ہے۔
” رئیس کے مصاحبین سب حاضر جواب ، تیز طبیعت ، زبان داز ، فقرہ باز ، ٹھٹھولی ، ضلع جگت میں طاق ، پھبتی کہنے میں مشتاق ، آواز ہ کسنے میں شہرہ آفاق تھے۔ پھبتی نہ کہیں ذہن کند ذہن ہو جائے۔“
فسانہ آزاد کا موضوع:
لکھنو کی تہذیب و معاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔ اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا ۔ انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ ہر ایک کردار کے فکر و عمل سے سطحیت ، عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔ فسانہ آزاد کے ہیرو کو لیجئے جو اس معاشرت کا نمائندہ ہے۔مگر نہایت ہی گھٹیا قسم کا معمولی آوارہ نوجوان ہے۔ جس کی زندگی کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی مقصد ۔ سرشار نے اپنے اس ہیرو کو یگانہ روزگار بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ اسی طرح کا بے ڈھنگا ، اوچھا اور لفنگا ہی رہا ۔ یہی وہ لکھنو کی تہذیب تھی کہ بے عمل اور بے کار لوگ جن کی حقیقی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں بزعم خود نادرہ روزگار ہستیاں بنے پھرتے ہیں۔ بقول ارشد کیانی
” سرشا ر کا ”فسانہ آزاد“ کسی سیاح کا روزنامچہ نہیں ہے او ر نہ ہی حالات و واقعات کا کوئی بیانیہ ہے۔ بلکہ یہ ایک زندہ تہذیب و معاشرت کی مرقع نگاری ہے۔ سرشار نے اپنے ناول میں مرقع نگاری ک ذریعے اپنے گرد وپیش کی زندگی پیش کی ہے۔ اس زندگی کی عکاسی اتنی صحیح کی گئی ہے کہ نقل اور اصل میں فرق معلوم نہیں ہوتا۔“
دراصل سرشار کا عہد لکھنوی تمدن کا دور انحطاط تھا، لکھنو کی زوال آمادہ سوسائٹی کا تار پود بکھر رہا تھا۔ وہ اس مٹتے ہوئے معاشرے کی بکھرتی ہوئی تہذیبی قدروں کو محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا اس کی نقش گری میں تفصیل اظہاب سے کام لیا ہے۔
طبقاتی کشمکش
سرشار کسی فلسفہ حیات کے غلام یا داعی نہیں۔ وہ طرز کہن سے بیزار اور آئین نو کی دھن میں سرشار ہےں۔ لیکن وہ چلتی پھرتی بے بنیاد اور کھوکھلی معاشرت پر چلتی ہوئی فقرہ بازی کرکے گزر جاتے ہیں۔ نئی تہذیب سے متاثر ہونے کے باوجود لکھنو کی پرانی تہذیبی اقدار سے یکسر دامن کش بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سرشار کے ہاں معاشرے کی طبقاتی کشمکش کا احسا س بھی اجاگر ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کے کرداروں میں نواب اور سرمایہ دار ہیں جن کا اپنا ایک انداز فکر ہے۔ ان کی اپنی تہذیب اور معاشرت ہے ۔ جو دوسرے طبقوں سے ممتاز ہے۔ دوسری طرف نچلا طبقہ ہے جس کے اپنے مسائل ہیں اور جو اونچے طبقے کا محتاج ۔ اس کی سوچ ، ذہن، عمل اور جسم اوپر کے طبقے کے ہاتھوں گروی ہے۔ اس طبقے میں چوڑی والیاں ، مہریاں ، اور گورا قسم کی عورتیں ہیں۔ یہ جو ان مگر پیٹ کی مار ہے۔ ارمان ہیں۔ امنگیں ہیں۔ لیکن مفلسی سد راہ ہے۔ ان کے نام داشتہ ، طوائف ، رنڈی ، مال زادی اور نہ جانے ایسے کتنے ہی نام ہیں سرشار نے ان کے حال و احوال کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
حقیقت نگاری
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اس کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔ حقیقت میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرور ہے لیکن تصنع یا بناوٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ مصنوعی قسم کا ہے اور ریا کاری کامظہر ہے ، اس ليے بعض لوگوں کو شاید یہ شک گزرا کہ یہ مصنف کا پیدا کردہ مصنوعی پن ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سرشار مصنوعی حقیقت کو پیش کرنے والے ہیں۔ سرشار لکھنو کی خوش باشی ، لذت اندوزی ، عیش کوشی اور خوش طبعی کے ترجمان ہیں اور اس ماحول میں پرورش پانے والے خوش طبع، خوش مزاج اور لذت پرست لوگوں کے عمل اور ردعمل سے ظرافت جنم لیتی ہے جو دھند کی طرح پوری لکھنوی معاشرت کو اپنی لپیٹ میں ليے ہوئے ہے۔ سرشار کی نگاہیں اس دھند سے الجھی ہوئی اس تہذیب کا جائزہ لیتی ہیں۔وحقیقت بین اور حقیقت نگار ہیں۔ اس ليے ظرافت کی دھند کی چادر کو ہٹا کر دیکھنا انہیں پسند نہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسی طرح پیش کر دیتے ہیں۔بقول پریم چند پال
” سرشار ہمیں لکھنو کے چوک باز ار کا منظر اور عیش باغ کا میلہ دکھاتے ہوئے بھیڑ بھڑ کے کی طرف لے جاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کندھے سے کندھا چھلا جا رہا ہے۔ ہٹنا ، بچنا کی آوازیں آرہی ہیں اور بھیڑ میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کہیں رپٹ نہ جائیں۔ ۔۔۔یہ متحرک تصویریں تیز ی کے ساتھ سامنے سے گزر جاتی ہیں۔
لکھنو سے عشق
سرشار نے جہاں لکھنو ی ماحو ل سے باہر قدم رکھا ، وہیں منہ کی کھائی ، بمبئی شہر کی عکاسی کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے گویا لکھنو سے دہلی آرہے ہوں۔ ترکی کے شہروں اور بازاروں کے تہذیبی عکس، جنگی مناظر اور جہاز رانی کے سین خارجی اعتبار سے بہت دلچسپ ہیں لیکن داخلی نقطہ نگاہ سے زیادہ موثر نہیں ۔ گویا سرشار نے اپنے مطالعہ کے بل پر منظر نگاری کی ہے ، مشاہد ے کے بل پر نہیں ۔ اسی ليے یہ لکھنو کے بیرونی مناظر کو پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مگر ایک نقاد کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ سرشار کو اپنے مولد اور اس کی تہذیب سے عشق تھا اور وہ اس زوال پذیر اور زوال آمادہ کلچر کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ سرشار کی اس کوشش نے فسانہ آزاد کو ہی نہیں بلکہ سرشار کو بھی لافانی بنا دیاہے۔اور یوں پوری لکھنوی معاشرت زندہ ہو کر سامنے آتی ہے۔ کوئی نواب کے مصائب خاص سے نازو انداز کی باتیں کر رہی ہے۔ پولیس کانسٹیبل ، چوراچکے ، چنگی کے محرر، ریلوے بابو ، ٹھاکر صاحب ، انگریزی گریجویٹ منہ میں سگریٹ دبا ہوا۔ نیو فیشن کے مسلمان ترکی ٹوپی ڈانٹے ہوئے ۔ یہ وہ مجمع ہے جس کی سرشار ہمیں سیر کراتے ہیں۔لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس مجمع میں ہر آدمی کی اس کی بات چیت اور اس کی حرکات و سکنات سے بخوبی پہچان سکتے ہیں۔
سرور پر فوقیت
رجب علی بیگ کو لکھنو سے والہانہ عشق تھا۔ اس نے بھی فسانہ عجائب میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی کی ہے۔ سرور نے اپنی کتاب کے دیباچے میں اور سرشار نے اپنے تما م افسانے میں لکھنو معاشرت اور سوسائٹی اور تہذیب و تمد ن کا حال دکھایا ہے۔ دنوں کا یہی دعوی ہے کہ انہوں نے لکھنوی معاشرت کی نقش گری کی ہے۔ مگر دونوں کی نقش گری میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ یہا ں پر کئی حوالوں سے سرشار کو سرور پر فوقیت حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری،
” سرور کا لکھنو قبرستان ، وحشت ناک، ویران اور سنسان ، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے غنیم کے حملے سے پیشتر مکین اپنے اپنے مکان چھوڑ چھوڑ کر شہر سے نکل گئے ہیں۔ سبھی کچھ موجود ہے مگر آدمی مطلق نہیں واں نام کو۔ سرشار کے یہاں آدمیوں کا جنگل ہے اورواقعات کا سیلاب۔ ۔۔۔۔مختصر یہ کہ سرور سے زندگی اور سرشار سے موت پناہ مانگتی ہے۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو فسانہ آزاد لکھنوی تہذیب کا ایک بھر پور مرقع ہے بقول عبدالقادر،
”لکھنو کی تہذیب اور اس کا ہر باشندہ ہمیں پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کتاب میں مل جائے گا۔“
کردار نگاری
سرشار کی کردار نگاری پر کئی اعتراضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔ اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا ۔ اور انہوں نے زیادہ تر مبالغہ سے کام لیا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اُن کے کرداروں کو کارٹون کہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اکثر ناقدین نے سرشار کی کردار نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کی تخلیق و تشکیل نہایت چابکدستی سے کی ہے۔ اور اس ناول فسانہ آزاد اپنے قصے کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ آئیے ناول کے اہم کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں
آزاد
آزاد ”فسانہ آزاد“ کا ہیرو ہے۔ ساراقصہ اس کے گرد گھومتا ہے۔ وہ ایک آوارہ اور گھمگو انسان ہے۔ کوئی نہیں جانتا وہ کون ہے۔ کس کا بیٹا ہے ۔ کہاں سے تعلیم پائی ۔کس خاندان سے تعلق ہے اور اس کا ذریعہ معاش کیا ہے۔اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہے۔ کہ وہ کشمیری مسلم گھرانے کا فرد ہے۔ اس کی عادات بانکوں سے ملتی چلتی ہیں۔ وہ ہر طرح کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ حددرجہ عاشق مزاج مگر ہرجائی اور ہوس پرست۔ ہے۔ جہاں کوئی اچھی صورت نظر پڑی۔ پھسل پڑا۔ جھوٹ بولنے اور اور دھوکا دینے میں اسے کوئی باک نہیں۔ شاعر اور نثر نگار کے علاوہ بے مثال مقر ر بھی ہے۔ حربی علوم سے بھی باخوبی آگا ہ ہے۔ رند مشرب حسین و قوی ہیکل بھی ہے۔ غرف تم اوصاف کے باوجود بقول علی عباس حسینی ”پنج عیب شرعی بھی موجود تھے۔
وہ ایک ترقی پسند انسان ہے وہ جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کا قائل نہیں۔ تعلیم نسواں کا حامی ہے اور سماج کی ہر دکھتی رگ کو بڑی ہوشیاری سے پکڑتا ہے۔ اس کے کارنامے بھی مثالی ہیں وہ اکیلا ہی روسیوں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ داستانی ہیروز کی طرح۔ اگرچہ اس کی محبت کا مرکز ایک نسوانی کردار ہے مگر دوران مہم جوئی وہ ہرجائی پن اور ہوس پرستی کا مظاہر ہ کرتا ہے۔
دراصل لکھنو کی معاشرت میں آزاد کی قماش کے لوگوں کے جو خصائص ہیں وہ آزاد میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کردار دوسرے کرداروں کے مقابلے میں گراوٹ کا آئینہ دار ہے۔“
خوجی کا کردار
خوجی کا پورا نام بدیع الزما ن ہے۔ فسانہ آزاد کے اگرچہ بعض دیگر کردار بھی مزاحیہ ہیں۔ لیکن ان سب سے خوجی کا کردار زیادہ مزاحیہ اور جاندار ہے۔ یہ کردار پورے ناو ل پر چھایا ہوا ہے۔ اور قارئین اسی کی بدولت ناول میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ کردار ناول کے ہیرو کے کردار سے زیادہ متحرک اور دلچسپ ہے۔ بقول ناقدین، ” فسانہ آزاد کہانی تو آزاد کی ہے مگر اس کا ہیرو خوجی معلوم ہوتا ہے۔“
خوجی میاں آزاد کا ایک بے تکلف دوست ہے۔ وہ کوتاہ قد ، کوتاہ گردن ، منحنی سا، تنگ پیشانی والا دبلا پتلا شخص ہے۔ داڑھی اس کی بکرے کی طرح لمبی اور چہرہ صفاچٹ ہے۔ وہ سر پر ترکی ٹوپی پہنے رکھتا ہے۔ وہ ساٹھ برس کی عمر تک پہنچ چکا ہے ،لیکن اس کے باوجود خود کو جوانمرد سمجھتا ہے اور ابھی تک شادی کا خواستگار ہے۔
خود کو حسین و جمیل سمجھنے کی بناءپر وہ تصور کرتا ہے کہ دنیا کی ہر حسین و جمیل عورت اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ مصر کی چھوکریوں کا ذکر کرتا ہے تو کبھی پولینڈ کی شہزادی کا جو اس کے تیئں اس پر عاشق ہو گئی تھی۔ دراصل وہ ہر حسینہ پر لٹو ہو جا تا ہے۔ اس نے کئی حسینائوں سے جوتیاں کھائی ہیں۔خصوصاً سرائے کی بھٹیارن اور بوا زعفران کے ہاتھوں اس کی کئی بار پٹائی ہوئی ہے۔ وہ خود کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اس ليے ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اور اکثر مار کھاتا ہے۔ پٹنے سے اسے کوئی عارنہیں۔ اس پست قامت کو سرشار نے مجسم شامت دکھایا ہے۔
خوجی خود کو حسین و جمیل یہاں تک کہ یوسفِ ثانی تصور کرتا ہے۔ شرارت و خباثت اس کی گھٹی میں رچی ہوئی ہے۔ بات بات پر ڈینگیں مارنا اور لاف زنی کرنا اس کا کام ہے۔ وہ افیونی ہے اورافیون کو ”چینا بیگم “ کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افیون ہر درد کا مداوا ہے اس کی بدولت فکر انسان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے پاتی: ”خوجی کو اگر عشق ہے اور والہانہ عشق ہے تو صرف اپنی چینا بیگم سے۔ خواہ وہ لکھنو میں ہو یا بمبئی، ترکی یاجہاز میں اس کی چینا بیگم اس کے ساتھ رہے گی۔“
اندرونی طورپر وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ لیکن بظاہر احساسِ برتری جتاتا نظر آتا ہے۔ وہ بات با ت پر جھگڑا کرنے کا عادی ہے اور ہر جھگڑے کے وقت قرولی نکالنے کی دھمکی دیتاہے۔ خوجی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ پانی کے نام سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ آزاد اسے پانی میں غوطہ لگانے کے ليے کہتا ہے تو خوجی کہتا ہے: ” یوں ہی زہر کی پڑیا دے دو، گلا گھونٹ ڈالو، یہ دل لگی ہمیں پسند نہیں۔“
دیگر کردار
ناول کاایک اور کردار ہمایوں فر کا ہے۔ جو کہ لکھنو کا بگڑا ہوا نواب دکھائی دیتاہے۔ وہ ناول کی ہیروئن حسن آراءپر فریفتہ ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کو اپنی جوانمردی کے کارنامے سنا کر اسے رام کرنے کی کوشش کرتا ہے ایک مرتبہ وہ ایک جلتے ہوئے مکان میں گھس کر ایک بچے کو آگ کے شعلوں سے اٹھا لاتا ہے ۔ تو اس کی محبوبہ اس کی جوانمردی سے متاثر ہو کر اس پر جان چھڑکنے لگتی ہے۔ آخر میں وہ قتل ہو جاتا ہے۔ اور قبر میں دفنا دیا جاتاہے۔ مصنف اسے دوبارہ زندہ دکھانے کے ليے لکھتا ہے کہ ہمایوں فر کی شکل میں ایک دوسرا آدمی تھا۔
سہپرر آراءہمایوں فر کی محبوبہ ہے۔ جوآزاد خیال ، ترقی پسند ،ہوشیار اور تیز و طرار لڑکی ہے۔ وہ خوابوں پر یقین رکھتی ہے۔ اور ان کی تعبیر دریافت کرتی رہتی ہے۔ وہ ہمایون پر اس وقت جان چھڑکنے لگتی ہے جب اس کی جوانمردی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے۔ اس میں ایک مشرقی عورت کے صفات موجود ہیں۔
اللہ رکھی کا کردار ایک متحرک کردار ہے وہ ایک بھٹیاری ہے۔ جو کبھی اللہ رکھی کے روپ میں سامنے آتی ہے اور کبھی ثریا بیگم کے نام سے پہنچانی جاتی ہے۔ وہ میاں آزاد پر بہ صد و جان فدا ہے۔ عشق میں اسے جوگن کا بھیس بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ وہ خود کو شریف زادی قرار دیتی ہے او ر خود کو ایسی ویسی عورتوں میں شمار نہیں کرتی۔ وہ ایک بوڑھے شخص کی بیاہی ہوئی تھی جو نوجوانی ہی میں اسے چھوڑ کر چل بسا ۔ اب وہ میاں آزاد سے نکاح کرنے کی خواہا ں ہے۔ لیکن میاں آزاد حسن آراءکے عشق میں مبتلا ہیں۔
ناول کی ہیروئن کا نام حسن آراءہے۔ جو بلا کی حسین ، تعلیم یافتہ اور ترقی پسند خاتون ہے۔ وہ عشق میں تقدیس اور پاکیزگی کی قائل ہے۔ وہ اپنے عاشق کا جذبہ عشق آزمانے کے ليے اسے امتحان میں ڈالتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر جنگ میں کھیت رہے تو شہید ہو جاؤ گے اور اگر فتح یاب ہو کر لوٹے تو غازی کہلائو گے۔ اور اس کے نتیجے میں میں تم سے شادی کرلوں گی۔ وہ تعلیم نسواں اور عورتوں کی ترقی کی خواہاں ہے۔ اس نے تعلیم نسواں کے ليے اپنے گھر میں ایک سکو ل کھو ل رکھا ہے۔
مجموعی جائزہ
اعتراضات کی بھر مار کے باوجود سرشار کی فسانہ آزاد کی اہمیت کو کوئی کم نہیں کر سکا ۔ یہی کتاب دراصل اپنے اصل معنوں میں ناول کے ليے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرشار نے مکمل طور پر اپنے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اور اردو ادب کو ایک عظیم اور خوبصورت کردار خوجی سے بھی نوازا ہے۔ اسلوب اور زبان بیان کے حوالے سے بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے بقول شوکت سبزواری: ” سرشار زندگی کے مصور نہیں نقاد ہیں، ان کی مصوری تخلیق حیات نہیں ، تنقید حیات ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...