ضلع سوات میں نظام عدل کے نفاذ پر مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان کے آئین کے خلاف ہے اور اس طرح سے انتہا پسندوں سے معاہدہ دراصل ان قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔ ان معترضین میں جو مشترک بات مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سب کا تعلق صوبہ سرحد سے نہیں۔ اس لیے کراچی ، اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر صرف تجزیہ کرنا آسان ہے برعکس اس کے ان لوگوں کی رائے بالکل مختلف ہو سکتی ہے جو خود یہاں کے حالات سے متاثر ہو رہےہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کو اب کئی سال ہوگئے ہیں۔ ان سالوں میں صوبہ سرحد کے عام آدمی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہر وقت عدم تحفظ کا احساس شکار یہ عوام اب صرف اور صرف امن کی خواہش مند ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ نظام عدل سے یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کو لاکھ تحفظات صحیح لیکن سب لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے سے سوات میں امن بحال ہوا۔ اس لیے نظام عدل کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کا قائم رہنا اشد ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ وفاقی حکومت کے مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون اور معاہدے کی وجہ سے انتہا پسند مزید طاقتور ہوں گے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ایک سال کے فوجی اپریشن کے دوران اس انتشار پر قابو پانے میں آپ کی فوج ناکام رہی اس لیے اس معاہدےکے سوا ہمارے پاس کوئی چاراہی نہیں تھا۔ اس لیے عام لوگوں کی نظر میں اس معاہدے کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور سب کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ چل سکے ۔ کیوں کہ پاکستانی حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔ معاہدے کی ناکامی کی صورت میں ایک بہت بڑی تباہی کا خدشہ ہے جس میں عام عوام کے پسے جانے کا اندیشہ بہت زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا ۔ خصوصی طور پر امریکہ کا خیال ہےکہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جاری جنگ کو اس معاہدے سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگیں لڑ کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ امریکہ کے ان تمام اعتراضات میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ امریکہ کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم اپنے ملک کے حالات کو ان سے بہتر جانتے ہیں۔
سبحان اللہ! وہاب اعجاز صاحب نے بلاگ لکھنا شروع کر دیا اور وہ بھی چپکے چپکے سے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی آمد سے اردو بلاگرز میں ایک بامطالعہ شخصیت کا اضافہ ہوگا۔
اس تحریر کے حوالے سے اتنا ہی کہوں گا کہ امن کی خاطر کچھ بھی کر گزرنا چاہیے۔ باقی معاملات کو سنبھالا جا سکتا ہے۔