میرانشاہ میں ڈرون حملہ ۔ مرنے والوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں۔تمام مارے جانے والے لوگ پاکستانی تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں
آج سوات میں سڑک کنارے ایک لاش ملی جس کے ساتھ ایک رقعہ پڑا ہوا تھا۔ رقعہ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یہ شخص جاسوس ہے اور تین دن تک اس کی لاش یہیں پڑی رہنے دی جائے اور اگر کسی نے اس کو اٹھانے کی جرات کی تو اس کا بھی یہی حشر ہوگا۔
کرک سے ایک دکاندار کا اغوا۔ پچاس لاکھ تاوان کا مطالبہ
آج بنوں میں ایک نوجوان دکاندار کو فوجی کانوائے نے میرانشاہ سے بنوں جاتے ہوئے گولی سے اڑا دیا۔ نوجوان سڑک کے کنارے بیٹھا پکوڑے بیچ رہا تھا۔
بونیر میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کئی گولے عام لوگوں کے گھروں پر گرے کئی ہلاکتوں کا خدشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! آج کل ذرائع ابلاغ میں اس قسم کی خبریں آپ کو عام نظر آئیں گی۔ ان تمام خبروں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے میں۔ یعنی ان خبروں میں مرنے والا ہر شخص میں ہوں۔ یعنی ایک عام آدمی۔ جسے یہ معلوم نہیں کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے۔ اور اس کے خون کا حساب کون دے گا۔
صوبہ سرحد میں بسنے والے عوام کے لیے فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں جسا کہ ان خبروں سے آپ کو پتہ چل چکا ہوگا۔ یہاں کا عام آدمی اگر طالبان کا ساتھ دیتا ہے تو اس کے گھر کو ڈرون طیاروں سے امریکہ اڑا دے گا۔ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیتا ہے تو اس کی لاش کسی چوراہے پر سڑتے ہوئے ملے گی۔ اور اگر وہ غیر جانبدار رہتا ہے تو بھی فرار ممکن نہیں یا تو فوجی کانوائے اسے گولی سے اڑا دے گی۔ یا پھر طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کے دوران اس کے گھر پر ایک گولہ گرے گا۔ اس کے علاوہ حکومت اور طالبان کی آپسی لڑائی کی وجہ سے عام آدمی جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک تر نوالہ بن چکا ہے۔ کیونکہ پولیس خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیا کرے گی۔ اس طرح جب چاہے جہاں چاہے کسی بھی عام آدمی کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور تاوان نہ ملنے کی صورت میں اس شخص قتل کر دیا جاتا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسی حالت میں جہاں میری عزت جان و مال کو شدید خطرہ ہے۔ جہاں میرا اور میرے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے میں کیا کروں کہاں جاؤں۔
یہی وہ نکتہ ہے جو ہم اپنے بلاگز کے ذریعے ان لوگوں کو سمجھانا چاہ رہے ہیں جو حکومت کو اپنی "رٹ" قائم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ امن کو سب سے مقدم رکھنا چاہیے تاکہ متاثرہ علاقوں میں انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ اپنے "کل" کو "محفوظ" بنانے کے لیے سرحد کے کئی علاقوں کے آج کو تباہ کروانا چاہ رہا ہے۔ اللہ انہيں ہدایت دے اور حکومت وقت کو بھی توفیق دے کہ وہ غیر کے قدموں میں جھکا اپنا سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دے سکے کہ ہم اپنوں پر گولیاں نہیں برسا سکتے۔
جواب دیںحذف کریںکہانی کیا سناؤں اپنے گھرکی
جواب دیںحذف کریںتمہارے سامنے ملبہ پڑا ہے
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںقائداعظم ایک حقیقت پسند شخص تھے، انہیں اپنی قوم کی کمزوریوں اور خامیوں کا علم تھا۔ انہیں اپنی قوم کی پسماندگی کا بھی خوب احساس تھا۔ وہ ایک قانون دان تھےانہوں نےانسانی تاریخ کے حوالہ جات سے اچھی طرح معلوم کرلیا تھا کہ کمزور قومیں اپنے حقوق اور مفادات کی جنگ دوسروں کے بھروسے پر نہیں لڑ سکتیں۔ انسانی تاریخ چیخ چیخ کرگواہی دے رہی ہے کہ جب ایک کمزور قوم اپنے جیسے انسانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے تو اسے تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چاہے وہ اس کے مذہبی یا ہم وطن بھائی ہی کیوں نہ ہوں، یہاں تک کہ قدرت بھی اسکی تباہی پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔
جواب دیںحذف کریںکسی کا عمل کسی کی قسمت بن جاتا ہے۔ آپ کیلیے اور وہاں کے عوام کیلیے ایک دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ آپکو اس مشکل گھڑی سے بحفاظت نکال لے اور اپنی عافیت کا سایہ آپ پر قائم رکھے۔
جواب دیںحذف کریںآمین