مضامین رشید۔ رشید احمد صدیقی کے 20 مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ ان مضامین کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ان میں مزاحیہ مضامین میں چارپائی ، ارہر کا کھیت ، گواہ ، مغالطہ ، دھوبی اور حاجی صاحب ہیں۔ اپنی یاد میں ، سرگزشت، مولانا سہیل ، مرشد ، حاجی صاحب اور ماتا بدل ان کی شخصیت نگاری ( خاکہ نگاری) کی اولین نقوش ہیں۔ سرگزشت عہد گل ، اپنی یاد میں اور سلام ہو نجد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے عبارت ہیں ۔ جبکہ مرشد ، آمد مین اورد ، اپنی یادمیں اور پاسبان انشائیے ہیں۔پروفیسر وحید اختر مضامین رشید کے بارے میں کہتے ہیں
مضامین رشید ،میں محض علی گڑھ نہیں ، ہندوستان کی جہد آزادی بھی ہے۔ برطانوی انگریز اور ہر قسم کے ہندوستانی بھی ہیں۔ پہاڑوں کی سیر بھی ہے، ریل کا سفر بھی ہے ، پھلوں کابیان بھی ہے ۔اور لکھنو بھی ، ہسپتال بھی ، ڈاکٹر بھی، نرسیں بھی ، دوست بھی ہیں ملازمین بھی ، بڑے لوگ بھی ہیں او رمزدور بھی ۔ اور یہی نہیں ہندوستان کا وہ دیہات بھی جو پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم متفرق مضامین نہیں ایک مسلسل افسانے کے اجزاءیا ناول کے متفرق ابواب پڑھ رہے ہیں۔
مضامین رشید ،میں محض علی گڑھ نہیں ، ہندوستان کی جہد آزادی بھی ہے۔ برطانوی انگریز اور ہر قسم کے ہندوستانی بھی ہیں۔ پہاڑوں کی سیر بھی ہے، ریل کا سفر بھی ہے ، پھلوں کابیان بھی ہے ۔اور لکھنو بھی ، ہسپتال بھی ، ڈاکٹر بھی، نرسیں بھی ، دوست بھی ہیں ملازمین بھی ، بڑے لوگ بھی ہیں او رمزدور بھی ۔ اور یہی نہیں ہندوستان کا وہ دیہات بھی جو پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم متفرق مضامین نہیں ایک مسلسل افسانے کے اجزاءیا ناول کے متفرق ابواب پڑھ رہے ہیں۔
مضامین رشیدکو اردو ادب میں ایک اہم مقام اور حیثیت حاصل ہے ۔ آئیے ان مضامین کے خصوصیات او ر اسلوب کا جائزہ لیتے ہیں،
علی گڑھ کا اثر:۔
ان مضامین کے عنوانات اگرچہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن ان سب کا محور ماحول اور فضاءعلی گڑھ کالج (علی گڑھ مسلم یونیوسٹی ) اور سرسید احمد خان کی شخصیت ہیں۔ رشید احمد صدیقی آ پ کو دنیا جہاں میں گھوما پھرا کے آپ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرکے آخر میں علی گڑھ کالج اور سرسید احمد خان کی شخصیت پر لا کھڑا کردے گا۔ ان مضامین سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مصنف کو خود علی گڑھ سے کتنی محبت اور لگائو ہے اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے کس قد ر عقیدت رکھتے ہیں۔ اور خود ان سے کس قدر متاثر ہیں اپنے مضامین میں علی گڑ ھ کے اثر کے بارے میں خود رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں
اپنے طالب علمی کی یاد ہر شخص کو خوشگوارمحسوس ہوتی ہے چاہے وہ زمانہ تکلیف و تردد ہی کا کیوں نہ رہا ہو۔ ۔۔۔اورجس نے اپنی زمانہ طالب علمی کا بہترین زمانہ ایسے ادارے میں بسر کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی دیرینہ علمی اور تہذیبی ورثے کا امین ، ان کے حوصلوں کا مرکز اور امیدوں کا سرچشمہ رہا ہو ایسے ساتھیوں میں گزر ا ہو جو مذہب ملک سوسائٹی اور علوم و فنون کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے بہر مند تھے۔ ایسی روایات ایسی فضا ایسا ساتھ ایسے روز شب ان سب کا آخر کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے۔
وہ ہر مضمون میں تقریباً علی گڑھ کا کالج کا ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح ایک مضمون شیطان کی آنت میں کالج کا جو نقشہ کھینچا ہے سار امنظرآنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
کسی علی گڑھ والے کے سامنے علی گڑھ کا نام لیجئے پھر دیکھیے وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اپنے مصائب و مناصب بھول جائے گا۔ اس کا تصور زمان و مکاں سے آزاد کرکے اس کالج کی آغوش میں پہنچا دے گا۔ وہی ڈائینگ ہال وہی مسجد وہی یونین وہی کچی بارک ، وہی کرکٹ وہی شرارتیں صحبتیں اور سرگرمیاں جن سے وہ اب دور اور محروم ہیں۔
شخصیت نگاری:۔
مضامین رشید “ کے بعض مضامین خاکہ نگاری (شخصیت نگاری) کے صنف پر بھی پورے اترتے ہیں جن میں حاجی صاحب ، مولانا سہیل اور ماتا بدل وغیر ہ شامل ہیں ۔ مولانا سہیل اور اورحاجی صاحب کا جو خاکہ انہوں نے کھینچا ہے وہ انہی کا کمال فن ہے۔ یہ دونوں صاحبان عام سی شخصیات ہیں اور قاری پہلے سے ان سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا لیکن رشیدصاحب دونوں کا خاکہ ایسی جزئیات سے بیان کر دیتے ہیں کہ قاری کے سامنے ان کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اور قاری یہ سمجھتا ہے گویا ان سے برسوں کی شناسائی ہے۔ اُن کی خاکہ نگاری کے بارے میں پروفیسر وحید اختر لکھتے ہیں،
وہ اردو میں خاکہ نگاری کے ایک نئے دور کا دیباچہ ہے۔ اس دبیاچے پر پوری کتابیں رشید صاحب نے ایسی لکھیں کہ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی بن گئے اور خاتم بھی۔
مولانا سہیل کے ضمن میں اس خوبی سے ذکر کرتے ہیں کہ انکی شخصیت کے ظاہر ی و باطنی کیفیات کا خاکہ آنکھوں کے سامنے آجا تا ہے۔
انگریزی کے نیاز مند تھے ، ریاضی سے دلچسپی تھی ، سائنس سے قطعاً نا آشنا ۔ ان کے علاوہ کالج میں درسیات کے سلسلے میں جتنے مضامین تھے ہر ایک پر عبور تھا۔ جدید ترین نظریات سے آشنا تھے۔ ذہانت اور حافظہ کا حال یہ تھا کہ جس چیز کو عمر میں کبھی کبھار دیکھا یا پڑھا تھا اس کی ادنیٰ جزئیات پر بھی اتنی قدرت تھی کہ اس پر نہایت اعتماد سے درس دے سکتے تھے۔
علی گڑھ کا اثر:۔
ان مضامین کے عنوانات اگرچہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن ان سب کا محور ماحول اور فضاءعلی گڑھ کالج (علی گڑھ مسلم یونیوسٹی ) اور سرسید احمد خان کی شخصیت ہیں۔ رشید احمد صدیقی آ پ کو دنیا جہاں میں گھوما پھرا کے آپ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرکے آخر میں علی گڑھ کالج اور سرسید احمد خان کی شخصیت پر لا کھڑا کردے گا۔ ان مضامین سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مصنف کو خود علی گڑھ سے کتنی محبت اور لگائو ہے اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے کس قد ر عقیدت رکھتے ہیں۔ اور خود ان سے کس قدر متاثر ہیں اپنے مضامین میں علی گڑ ھ کے اثر کے بارے میں خود رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں
اپنے طالب علمی کی یاد ہر شخص کو خوشگوارمحسوس ہوتی ہے چاہے وہ زمانہ تکلیف و تردد ہی کا کیوں نہ رہا ہو۔ ۔۔۔اورجس نے اپنی زمانہ طالب علمی کا بہترین زمانہ ایسے ادارے میں بسر کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی دیرینہ علمی اور تہذیبی ورثے کا امین ، ان کے حوصلوں کا مرکز اور امیدوں کا سرچشمہ رہا ہو ایسے ساتھیوں میں گزر ا ہو جو مذہب ملک سوسائٹی اور علوم و فنون کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے بہر مند تھے۔ ایسی روایات ایسی فضا ایسا ساتھ ایسے روز شب ان سب کا آخر کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے۔
وہ ہر مضمون میں تقریباً علی گڑھ کا کالج کا ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح ایک مضمون شیطان کی آنت میں کالج کا جو نقشہ کھینچا ہے سار امنظرآنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
کسی علی گڑھ والے کے سامنے علی گڑھ کا نام لیجئے پھر دیکھیے وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اپنے مصائب و مناصب بھول جائے گا۔ اس کا تصور زمان و مکاں سے آزاد کرکے اس کالج کی آغوش میں پہنچا دے گا۔ وہی ڈائینگ ہال وہی مسجد وہی یونین وہی کچی بارک ، وہی کرکٹ وہی شرارتیں صحبتیں اور سرگرمیاں جن سے وہ اب دور اور محروم ہیں۔
شخصیت نگاری:۔
مضامین رشید “ کے بعض مضامین خاکہ نگاری (شخصیت نگاری) کے صنف پر بھی پورے اترتے ہیں جن میں حاجی صاحب ، مولانا سہیل اور ماتا بدل وغیر ہ شامل ہیں ۔ مولانا سہیل اور اورحاجی صاحب کا جو خاکہ انہوں نے کھینچا ہے وہ انہی کا کمال فن ہے۔ یہ دونوں صاحبان عام سی شخصیات ہیں اور قاری پہلے سے ان سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا لیکن رشیدصاحب دونوں کا خاکہ ایسی جزئیات سے بیان کر دیتے ہیں کہ قاری کے سامنے ان کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اور قاری یہ سمجھتا ہے گویا ان سے برسوں کی شناسائی ہے۔ اُن کی خاکہ نگاری کے بارے میں پروفیسر وحید اختر لکھتے ہیں،
وہ اردو میں خاکہ نگاری کے ایک نئے دور کا دیباچہ ہے۔ اس دبیاچے پر پوری کتابیں رشید صاحب نے ایسی لکھیں کہ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی بن گئے اور خاتم بھی۔
مولانا سہیل کے ضمن میں اس خوبی سے ذکر کرتے ہیں کہ انکی شخصیت کے ظاہر ی و باطنی کیفیات کا خاکہ آنکھوں کے سامنے آجا تا ہے۔
انگریزی کے نیاز مند تھے ، ریاضی سے دلچسپی تھی ، سائنس سے قطعاً نا آشنا ۔ ان کے علاوہ کالج میں درسیات کے سلسلے میں جتنے مضامین تھے ہر ایک پر عبور تھا۔ جدید ترین نظریات سے آشنا تھے۔ ذہانت اور حافظہ کا حال یہ تھا کہ جس چیز کو عمر میں کبھی کبھار دیکھا یا پڑھا تھا اس کی ادنیٰ جزئیات پر بھی اتنی قدرت تھی کہ اس پر نہایت اعتماد سے درس دے سکتے تھے۔
مرقع نگاری:۔
مرقع نگاری سے مراد لفظی تصویر کو اپنے تمام تر جزئیات کے ساتھ بنانا۔رشید صاحب بھی فرحت اللہ بیگ کی طرح مرقع نگار ہیں مگر ان کی مرقع نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ مرقع نگاری میں خارجی باتوں کے ساتھ ساتھ اندرونی کیفیات اور تشخص کی بھی مرقع کشی کرتے ہیں۔ان کی مرقع نگاری کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ مرقع نگاری کرتے وقت زمانے کے حالات و واقعات اور ماحول کو درمیان میں لے آتے ہیں۔ اس لئے ان کے شخصی مرقعے زمانے کے مرقعوں کا روپ دھار لیتے ہیں،مثلاً
اتنا بیان دے کر حاجی صاحب نے داڑھی کو اس طرح تکان دی کہ ایک ایک بال باہمہ و بے ہمہ ہوگیا ، پیشانی پر شکنیں پڑنی شروع ہوئیں تو کرہ سر کے خط استوا پر جا کر ختم ہوئیں اور آنکھیں فردوسی کا شاہنامہ بن گئیں۔
انشائیہ:۔
مضامین رشید میں بعض مضامین ایسے ہیں جو فن انشائیہ کے فنی لوازمات پر پورے اترتے ہیں ان میں ” اپنی یاد میں “ ، ”پاسبان“ ، ”کارواں پیداست“ اور” آمد میں آورد“ وغیر ہ شامل ہین۔ کیونکہ انشائیہ ایک ایسا فن ہے جس میں کوئی عنوان دے کر آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک کو شعوری طورپر جانے بغیر قدما اس سے کام لیتے ہیں۔ انشائیہ لکھنا اچھی اور دلچسپ گفتگو کرنے کا فن ہے۔ جس میں بات سے بات نکلتی ہے ۔ لیکن بولنے والا مخاطبوں کی توجہ گرفت میں لئے رہتا ہے، خود تو ہر طرف بھٹکتا ہے مگر قاری کی توجہ کو بھٹکنے یا ہٹنے نہیں دیتا۔ رشید احمد صدیقی کے انشائیوں میں گفتگو کا فن ملتا ہے۔ اس گفتگو کا انحصار اُن کے موڈ وقتی ردعمل ، مخاطبوں کے مزاج کے پاس اور مواقع پر ہے۔اپنے مضمون”اپنی یاد میں “ وہ لکھتے ہیں
مرقع نگاری سے مراد لفظی تصویر کو اپنے تمام تر جزئیات کے ساتھ بنانا۔رشید صاحب بھی فرحت اللہ بیگ کی طرح مرقع نگار ہیں مگر ان کی مرقع نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ مرقع نگاری میں خارجی باتوں کے ساتھ ساتھ اندرونی کیفیات اور تشخص کی بھی مرقع کشی کرتے ہیں۔ان کی مرقع نگاری کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ مرقع نگاری کرتے وقت زمانے کے حالات و واقعات اور ماحول کو درمیان میں لے آتے ہیں۔ اس لئے ان کے شخصی مرقعے زمانے کے مرقعوں کا روپ دھار لیتے ہیں،مثلاً
اتنا بیان دے کر حاجی صاحب نے داڑھی کو اس طرح تکان دی کہ ایک ایک بال باہمہ و بے ہمہ ہوگیا ، پیشانی پر شکنیں پڑنی شروع ہوئیں تو کرہ سر کے خط استوا پر جا کر ختم ہوئیں اور آنکھیں فردوسی کا شاہنامہ بن گئیں۔
انشائیہ:۔
مضامین رشید میں بعض مضامین ایسے ہیں جو فن انشائیہ کے فنی لوازمات پر پورے اترتے ہیں ان میں ” اپنی یاد میں “ ، ”پاسبان“ ، ”کارواں پیداست“ اور” آمد میں آورد“ وغیر ہ شامل ہین۔ کیونکہ انشائیہ ایک ایسا فن ہے جس میں کوئی عنوان دے کر آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک کو شعوری طورپر جانے بغیر قدما اس سے کام لیتے ہیں۔ انشائیہ لکھنا اچھی اور دلچسپ گفتگو کرنے کا فن ہے۔ جس میں بات سے بات نکلتی ہے ۔ لیکن بولنے والا مخاطبوں کی توجہ گرفت میں لئے رہتا ہے، خود تو ہر طرف بھٹکتا ہے مگر قاری کی توجہ کو بھٹکنے یا ہٹنے نہیں دیتا۔ رشید احمد صدیقی کے انشائیوں میں گفتگو کا فن ملتا ہے۔ اس گفتگو کا انحصار اُن کے موڈ وقتی ردعمل ، مخاطبوں کے مزاج کے پاس اور مواقع پر ہے۔اپنے مضمون”اپنی یاد میں “ وہ لکھتے ہیں
میر ے مضامین غزل کی نوعیت کے ہوتے تھے ، مربوط اور مسلسل نظم کی مانند نہیں ۔ ان مضامین میں جو باتیں غیر متعلق اور بہکی بہکی معلوم ہوتی ہیں وہ میرے فن کی شریعت کے مطابق تھیں۔ میں خود نہیں بہکتا تھا ۔ دوسروں کو بہکنے کی فرصت دیتا تھا۔ عقل کی باتیں دیر تک نہ سنی جا سکتی ہیں اور نہ سنائی جا سکتی ہیں۔
مشرق اور مغرب کا اثر:۔
رشیداحمد صدیقی اردو اور فارسی ادب سے کما حقہ آگاہ تھے اور اس سے گہرا شغف اور لگائو رکھتے تھے۔ انہوں نے انگریزی ادب اور انگریزی ادبی شاہکاروں کا بھی مطالعہ کررکھا تھا۔ وہ بعض سرکردہ مغربی ادیبوں سے بھی متاثر تھے۔ خصوصاً برناڈ شاہ، آسکر وائلڈ وغیرہ ۔ غالب ان کی تحریروں میں اکثر نظر آتے ہیں ۔ اردو ادبیوں میں کم ایسے ادیب ہوں گے جنہوں نے غالب سے اس قدر استفادہ کیا ہو ، جتنا رشید صدیقی نے کیاہے۔ ان کے استفادہ کا یہ عالم ہے کہ ان کی تحریروں میں غالب کے اشعار، ترکیبیں ، استعارات ان کے جملے ان کی زندگی کے واقعات تک موجود ہیں ۔ غالب کے علاوہ وہ اقبال اور اکبر سے بھی متاثر ہیں۔ یعنی انہوں نے مشرق اور مغرب کے ادیبوں سے اثر لیا اور اپنے اسلوب کو پروان چڑھایا۔
طنز و مزاح:۔
اردو نثر میں طنز و مزاح کی روایت مکاتیب غالب سے شروع ہوتی ہے مگر جن ادیبوں نے اس صنف کو ہمارے ہاں شائستہ محترم اور مقبول بنا دیا ۔ اُن میں پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کے نام سرفہرست ہیں۔ پطرس بخاری نے بہت کم لکھا لیکن ان کے ہاں ظرافت اور مزاح کی اعلیٰ ترین قسم ملتی ہے ۔ بلکہ ظرافت کے جیسے نمونے پطرس کے ہاں پائے جاتے ہیں کسی اور ادیب کے ہاں نہیں۔ رہے رشید احمد صدیقی تو انہوں نے طنز کو اتنا شگفتہ ، عالمانہ اور بلند کر دکھایا کہ ایک نقاد کے الفاظ میں
و ہ ایشیا کے سب سے بڑے طنز نگار کے مقام پر جا پہنچے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کے طنزیات میں ظرافت کی لطیف اور خوشگوار آمیزش ہوتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کے طنز کے نشتر میں بہت تیزی ہوتی ہے۔ لیکن سارا کمال تو ان کے سلیقہ استعمال میں ہے ۔ وہ اتنی پھرتی سے نشتر لگاتے ہیں اور پھر اس پر مزاح کا پھاہا رکھ دیتے ہیں کہ ان کے نشتر کی گہرائی کا اندازہ خواص ہی کو ہوتاہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو پہلے وہ ایک مزاح نگار ہیں اور طنز نگار بعد میں ۔ رشید صاحب کی ظرافت کا کوئی مقصد نہیں اگر ہے تو خوشدلی ، بہادری ، شرافت کا پرچار ہے۔ رشید صاحب کا فن طنز و مزاح کا حقیقی فن ہے، جس میں کھلکھلا کر ہنسنے اور قہقہے برسانے کے بجائے تبسم زیر لبی اور خندہ گل کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔اُن کی طنز و مزاح کا نمونہ دیکھیے۔
جلسہ شروع ہوا، ایک نے مصرع اٹھایا ، سےنکڑوں نے نعرہ لگایا اور ہزاروں نے آسمان سر پر اٹھایا۔ خدا خدا کرکے ایک صاحب کی باری آئی جن کا لہجہ نکیریں کا اور جن کی شاعری عذاب قبر کے مشابہ تھی۔ پہلے تو پڑھنے سے اس لجاجت سے معذوری ظاہر کی جیسے پھانسی کے تختے پر جانے سے گریز کر رہے ہیں ۔ لیکن جب اصرار خاطر خواہ اور بے پناہ معلوم ہوا تو معلوم نہیں کدھر سے ایک رجسٹر نکالا جس پر معلوم ہوتا تھا کہ غدر سے اب تک میونسپل کمیٹی کے تما م اندراجات ، وفات و پیدائش موجو دہیں۔
مولانا سہیل کے خاکے میں لکھتے ہیں
پان کثرت سے کھاتے ہیں ، دانت بالکل نہیں صاف کرتے ، جس طرح بعض لوگ شکر کی خاطر چائے پیتے ہیں مولانا چونے کی خاطر پان کھاتے ہیں۔
رشیداحمد صدیقی اردو اور فارسی ادب سے کما حقہ آگاہ تھے اور اس سے گہرا شغف اور لگائو رکھتے تھے۔ انہوں نے انگریزی ادب اور انگریزی ادبی شاہکاروں کا بھی مطالعہ کررکھا تھا۔ وہ بعض سرکردہ مغربی ادیبوں سے بھی متاثر تھے۔ خصوصاً برناڈ شاہ، آسکر وائلڈ وغیرہ ۔ غالب ان کی تحریروں میں اکثر نظر آتے ہیں ۔ اردو ادبیوں میں کم ایسے ادیب ہوں گے جنہوں نے غالب سے اس قدر استفادہ کیا ہو ، جتنا رشید صدیقی نے کیاہے۔ ان کے استفادہ کا یہ عالم ہے کہ ان کی تحریروں میں غالب کے اشعار، ترکیبیں ، استعارات ان کے جملے ان کی زندگی کے واقعات تک موجود ہیں ۔ غالب کے علاوہ وہ اقبال اور اکبر سے بھی متاثر ہیں۔ یعنی انہوں نے مشرق اور مغرب کے ادیبوں سے اثر لیا اور اپنے اسلوب کو پروان چڑھایا۔
طنز و مزاح:۔
اردو نثر میں طنز و مزاح کی روایت مکاتیب غالب سے شروع ہوتی ہے مگر جن ادیبوں نے اس صنف کو ہمارے ہاں شائستہ محترم اور مقبول بنا دیا ۔ اُن میں پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کے نام سرفہرست ہیں۔ پطرس بخاری نے بہت کم لکھا لیکن ان کے ہاں ظرافت اور مزاح کی اعلیٰ ترین قسم ملتی ہے ۔ بلکہ ظرافت کے جیسے نمونے پطرس کے ہاں پائے جاتے ہیں کسی اور ادیب کے ہاں نہیں۔ رہے رشید احمد صدیقی تو انہوں نے طنز کو اتنا شگفتہ ، عالمانہ اور بلند کر دکھایا کہ ایک نقاد کے الفاظ میں
و ہ ایشیا کے سب سے بڑے طنز نگار کے مقام پر جا پہنچے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کے طنزیات میں ظرافت کی لطیف اور خوشگوار آمیزش ہوتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کے طنز کے نشتر میں بہت تیزی ہوتی ہے۔ لیکن سارا کمال تو ان کے سلیقہ استعمال میں ہے ۔ وہ اتنی پھرتی سے نشتر لگاتے ہیں اور پھر اس پر مزاح کا پھاہا رکھ دیتے ہیں کہ ان کے نشتر کی گہرائی کا اندازہ خواص ہی کو ہوتاہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو پہلے وہ ایک مزاح نگار ہیں اور طنز نگار بعد میں ۔ رشید صاحب کی ظرافت کا کوئی مقصد نہیں اگر ہے تو خوشدلی ، بہادری ، شرافت کا پرچار ہے۔ رشید صاحب کا فن طنز و مزاح کا حقیقی فن ہے، جس میں کھلکھلا کر ہنسنے اور قہقہے برسانے کے بجائے تبسم زیر لبی اور خندہ گل کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔اُن کی طنز و مزاح کا نمونہ دیکھیے۔
جلسہ شروع ہوا، ایک نے مصرع اٹھایا ، سےنکڑوں نے نعرہ لگایا اور ہزاروں نے آسمان سر پر اٹھایا۔ خدا خدا کرکے ایک صاحب کی باری آئی جن کا لہجہ نکیریں کا اور جن کی شاعری عذاب قبر کے مشابہ تھی۔ پہلے تو پڑھنے سے اس لجاجت سے معذوری ظاہر کی جیسے پھانسی کے تختے پر جانے سے گریز کر رہے ہیں ۔ لیکن جب اصرار خاطر خواہ اور بے پناہ معلوم ہوا تو معلوم نہیں کدھر سے ایک رجسٹر نکالا جس پر معلوم ہوتا تھا کہ غدر سے اب تک میونسپل کمیٹی کے تما م اندراجات ، وفات و پیدائش موجو دہیں۔
مولانا سہیل کے خاکے میں لکھتے ہیں
پان کثرت سے کھاتے ہیں ، دانت بالکل نہیں صاف کرتے ، جس طرح بعض لوگ شکر کی خاطر چائے پیتے ہیں مولانا چونے کی خاطر پان کھاتے ہیں۔
قول محال Paradox
بقول ایک نقاد۔
قول محال کی برجستگی رشید کا خاصہ ہے۔
رشید احمد صدیقی نے اپنے اسلوب میں قول محال کی برجستگی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ قول محال کیا ہے؟ قول محال ایک ایسی بات کو کہتے ہیں جس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان نہ ہو مگر فی الواقع و قوع پذیر ہوجائے ۔ مثلاً اگر یہ کہیں کہ بچہ پانی سے جل گیا ۔ بظاہر بچے کاپانی سے جلنا ممکن نہیں مگر جب اس کو گرم کیا جائے تو اس میں جلانے کی خاصیت پیداہو جاتی ہے۔ چنانچہ بچے کا پانی سے جلنا ثابت ہو گیا۔ قول محال کا استعمال کوئی آسان بات نہیں ۔ یہ فن بڑی محنت ، فلسفیانہ اپج ، ادبی بلوغت اور قادرالکلامی سے ہاتھ آتا ہے۔ رشید احمد صدیقی کو اس فن میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ قول مہال سے بلاغت ، جامعیت اور اختصار پیدا ہوتا ہے۔قول محال کا حربہ انہوں نے مغرب سے حاصل کیا ہے۔ ارہر کے کھیت میں لکھتے ہیں،
ارہر کا کھیت ہندوستان کی پارلیمنٹ ہے۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
ولادت تو مادر زاد ہوتی ہے لیکن محمد علی کی موت خانہ زاد تھی ۔ عام طور پر موت اپنا انتخاب خود کرتی ہے ۔ لیکن محمد علی نے موت کا انتخاب خود کیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے محمد علی کی زندگی اور موت دونوں کو ایک حقیقت بنا دیا
رشید احمد صدیقی نے اپنے اسلوب میں قول محال کی برجستگی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ قول محال کیا ہے؟ قول محال ایک ایسی بات کو کہتے ہیں جس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان نہ ہو مگر فی الواقع و قوع پذیر ہوجائے ۔ مثلاً اگر یہ کہیں کہ بچہ پانی سے جل گیا ۔ بظاہر بچے کاپانی سے جلنا ممکن نہیں مگر جب اس کو گرم کیا جائے تو اس میں جلانے کی خاصیت پیداہو جاتی ہے۔ چنانچہ بچے کا پانی سے جلنا ثابت ہو گیا۔ قول محال کا استعمال کوئی آسان بات نہیں ۔ یہ فن بڑی محنت ، فلسفیانہ اپج ، ادبی بلوغت اور قادرالکلامی سے ہاتھ آتا ہے۔ رشید احمد صدیقی کو اس فن میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ قول مہال سے بلاغت ، جامعیت اور اختصار پیدا ہوتا ہے۔قول محال کا حربہ انہوں نے مغرب سے حاصل کیا ہے۔ ارہر کے کھیت میں لکھتے ہیں،
ارہر کا کھیت ہندوستان کی پارلیمنٹ ہے۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
ولادت تو مادر زاد ہوتی ہے لیکن محمد علی کی موت خانہ زاد تھی ۔ عام طور پر موت اپنا انتخاب خود کرتی ہے ۔ لیکن محمد علی نے موت کا انتخاب خود کیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے محمد علی کی زندگی اور موت دونوں کو ایک حقیقت بنا دیا
۔خطابیہ انداز:۔
رشید احمد صدیقی کی طنز کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ کہ وہ بیک وقت خود کو اور ناظر کو نشانہ تمسخر بناتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نگارش میں خطابت کا رنگ واضح ہے ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بےشتر مضامین ریڈیو والوں کی فرمائش پر لکھے اور چونکہ اس قسم کے مضامین میں بہت برے طبقے سے گفتگو کے مترادف تھے ۔ لہٰذا ان میں از خود خطابت کا رنگ پیدا ہوتا چلا گیا ۔مثلاً
عورت کا دشمن عورتوں سے زیادہ کوئی نہیں اس لئے کہ ہر عورت دوسروں کو اپنا ازلی حریف سمجھتی ہے۔
رشید احمد صدیقی کی طنز کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ کہ وہ بیک وقت خود کو اور ناظر کو نشانہ تمسخر بناتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نگارش میں خطابت کا رنگ واضح ہے ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بےشتر مضامین ریڈیو والوں کی فرمائش پر لکھے اور چونکہ اس قسم کے مضامین میں بہت برے طبقے سے گفتگو کے مترادف تھے ۔ لہٰذا ان میں از خود خطابت کا رنگ پیدا ہوتا چلا گیا ۔مثلاً
عورت کا دشمن عورتوں سے زیادہ کوئی نہیں اس لئے کہ ہر عورت دوسروں کو اپنا ازلی حریف سمجھتی ہے۔
خامیاں:۔
ان کی زبان میں کہیں کہیں فارسیت بہت زیادہ ہے ۔ ان کی تحریر میں کہیں کہیں ابہام بھی ہے اور الفاظ کے طلسم میں معنی کی تلاش مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ مقامیت ہے۔ یعنی ان کے مضامین اور موضوعات کا تعلق عموماً ایک محدود علاقے اور مقام سے وابستہ ہے۔ وہ علی گڑھ ، علی گڑھ کی مقامی روایات ، خصوصیات ، علی گڑھ کی اعلیٰ و ادنیٰ شخصیات کو اپنے مضامین کا موضوع بناتے ہیں۔ اس لئے ان کے مضامین میں ایک خاص قسم کی اشاریت اور علامیت پیدا ہوگئی ہے۔ یعنی ایسے خاص اشارے ملتے ہیں جو اس خاص ماحول سے باہر سب آدمی نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہ وہ جو استعارے اور اشار ے کنائے استعمال کرتے ہیں جن کو سمجھنے والے محدود لوگ ہوتے ہیں۔ موضوعات میں اس اختصاص اور مشکل فارسی الفاظ اور تراکیب کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
عوام کا خیال ضروری ہے لیکن ہر دفعہ کیا ضروری ہے کہ جو ہماری اصطلاحوں سے ناواقف ہو، اسے ہمارے جواہر پاروں سے کھیلنے دیا جائے ۔
ان کی زبان میں کہیں کہیں فارسیت بہت زیادہ ہے ۔ ان کی تحریر میں کہیں کہیں ابہام بھی ہے اور الفاظ کے طلسم میں معنی کی تلاش مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ مقامیت ہے۔ یعنی ان کے مضامین اور موضوعات کا تعلق عموماً ایک محدود علاقے اور مقام سے وابستہ ہے۔ وہ علی گڑھ ، علی گڑھ کی مقامی روایات ، خصوصیات ، علی گڑھ کی اعلیٰ و ادنیٰ شخصیات کو اپنے مضامین کا موضوع بناتے ہیں۔ اس لئے ان کے مضامین میں ایک خاص قسم کی اشاریت اور علامیت پیدا ہوگئی ہے۔ یعنی ایسے خاص اشارے ملتے ہیں جو اس خاص ماحول سے باہر سب آدمی نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہ وہ جو استعارے اور اشار ے کنائے استعمال کرتے ہیں جن کو سمجھنے والے محدود لوگ ہوتے ہیں۔ موضوعات میں اس اختصاص اور مشکل فارسی الفاظ اور تراکیب کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
عوام کا خیال ضروری ہے لیکن ہر دفعہ کیا ضروری ہے کہ جو ہماری اصطلاحوں سے ناواقف ہو، اسے ہمارے جواہر پاروں سے کھیلنے دیا جائے ۔
بات سے بات نکالنا:۔
زبان کی لطافت پر تو ہر کوئی توجہ دے سکتا ہے مگر علمیت کا فقدان ظریفانہ ادب کے پلہ کو ہلکا کر دیتا ہے۔ ان کے مضامین میں فکری عنصراور لطیف اشارے نہایت دقیق اور عمیق ہوتے ہیں۔ وہ مقامی واقعات اور ملک کے دیگر مسائل پر ایک خاص عالمانہ اندازمیں بحث کرتے ہیں۔ بات میں سے بات پیدا کرتے ہیں۔ بات میں سے بات نکالنا اور ہر بات میں نئی بات پیداکرنا ان کا فن ہے۔ بات کرتے کرتے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور ”ہاں میں کہہ رہاتھا “ اور ”آمد برسر مطلب“ کہہ کر اصل بات پر آجاتے ہیں۔
سونا محض سونے کی خاطر میرے نزدیک عبث تھا۔ دنیا کے دیکھنے اور برتنے میں جو لطف اور ذمہ داری ہے اس کو آدمی سمجھ لے تو میراخیال ہے کہ بغیر اشد ضرورت کے کبھی سونے پر آمادہ نہ ہو۔ سیاسی سرگرمیوں کی خاطر مجھے جیل خانے جانا پسندتھا نہ جاہ و منزلت گوار تھی۔
زبان کی لطافت پر تو ہر کوئی توجہ دے سکتا ہے مگر علمیت کا فقدان ظریفانہ ادب کے پلہ کو ہلکا کر دیتا ہے۔ ان کے مضامین میں فکری عنصراور لطیف اشارے نہایت دقیق اور عمیق ہوتے ہیں۔ وہ مقامی واقعات اور ملک کے دیگر مسائل پر ایک خاص عالمانہ اندازمیں بحث کرتے ہیں۔ بات میں سے بات پیدا کرتے ہیں۔ بات میں سے بات نکالنا اور ہر بات میں نئی بات پیداکرنا ان کا فن ہے۔ بات کرتے کرتے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور ”ہاں میں کہہ رہاتھا “ اور ”آمد برسر مطلب“ کہہ کر اصل بات پر آجاتے ہیں۔
سونا محض سونے کی خاطر میرے نزدیک عبث تھا۔ دنیا کے دیکھنے اور برتنے میں جو لطف اور ذمہ داری ہے اس کو آدمی سمجھ لے تو میراخیال ہے کہ بغیر اشد ضرورت کے کبھی سونے پر آمادہ نہ ہو۔ سیاسی سرگرمیوں کی خاطر مجھے جیل خانے جانا پسندتھا نہ جاہ و منزلت گوار تھی۔
روانی:۔
رشید احمد کی زبان مشکل عربی و فارسی الفاظ سے نقش و نگار حاصل کرتی ہے۔ ان کی عبارت خیال کی بلندی اور الفاظ کی ترتیب کی وجہ سے عام فہم نہیں لیکن ایک طرح کی روانی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ شگفتگی ، مضمون کے ہر حصے میں نظرآتی ہے۔ فلسفیانہ مباحث بھی اس شگفتہ انداز میں بیان ہوجاتے ہیں۔ رشید صدیقی نے بعض اہم شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے طرز تحریر کے زور سے نہیں اس طرح بیان کیا ہے کہ ہمارے سامنے ہنستے بولتے نظر آتے ہیں ۔ موضوع غیر دلچسپ ہونے کے باوجود عبارت میں شگفتگی اور جان ہے کہ جی بالکل نہیں اکتاتا۔ ان مضامین کی اشاعت سے ان کی بعض ایسی صلاحیتوں کا مظاہر ہ ہوا ہے جو ہر لحاظ سے قابل قدر ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
رشید احمد صدیقی کے ہاں جو خاص بات ہے وہ ان کاعلمی اسلوب بیان ہے جس کو سمجھنے کے لئے علم ، لیاقت اور حس کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامیت ہے ۔ وہ مقامی اور ملک کے دیگر مسائل پر ایک خاص عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں بحث کرتے ہیں۔پھر قول محال کے استعمال نے ان کے طنز و مزاح میں بھی ایک آفاقیت پیدا کردی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے مضامین رشید اردو کی عظیم نثر ی تخلیق ہے ۔ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
رشید احمد کی زبان مشکل عربی و فارسی الفاظ سے نقش و نگار حاصل کرتی ہے۔ ان کی عبارت خیال کی بلندی اور الفاظ کی ترتیب کی وجہ سے عام فہم نہیں لیکن ایک طرح کی روانی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ شگفتگی ، مضمون کے ہر حصے میں نظرآتی ہے۔ فلسفیانہ مباحث بھی اس شگفتہ انداز میں بیان ہوجاتے ہیں۔ رشید صدیقی نے بعض اہم شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے طرز تحریر کے زور سے نہیں اس طرح بیان کیا ہے کہ ہمارے سامنے ہنستے بولتے نظر آتے ہیں ۔ موضوع غیر دلچسپ ہونے کے باوجود عبارت میں شگفتگی اور جان ہے کہ جی بالکل نہیں اکتاتا۔ ان مضامین کی اشاعت سے ان کی بعض ایسی صلاحیتوں کا مظاہر ہ ہوا ہے جو ہر لحاظ سے قابل قدر ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
رشید احمد صدیقی کے ہاں جو خاص بات ہے وہ ان کاعلمی اسلوب بیان ہے جس کو سمجھنے کے لئے علم ، لیاقت اور حس کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامیت ہے ۔ وہ مقامی اور ملک کے دیگر مسائل پر ایک خاص عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں بحث کرتے ہیں۔پھر قول محال کے استعمال نے ان کے طنز و مزاح میں بھی ایک آفاقیت پیدا کردی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے مضامین رشید اردو کی عظیم نثر ی تخلیق ہے ۔ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
رشید احمد صدیقی واقعی اردو کے بہت بڑے نثر نگار ہیں اور یہ کتاب لاجواب ہے، لیکن افسوس کہ رشید احمد صدیقی کو اردو میں عموماً وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔
جواب دیںحذف کریںAwesome
جواب دیںحذف کریں