کراچی سے آنے والی خبروں نے ہم پشتونوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس پاکستان کی سالمیت کے نام پر لڑے جانے والی جنگ میں ہماری نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس پاکستان کے بسنے والے لوگ آج ہمیں کہہ رہے ہیں کہ صوبہ سرحد سے آنے والے افراد کی رجسٹریشن کرائی جائے اور انھیں صرف کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ خیر رجسٹریشن کی بات تو چلیں مان لیتے ہیں۔ اس لیے کہ آبادی کی اتنی بڑی نقل مقانی کا کوئی نہ کوئی ریکارڈ رکھنا اشد ضروری ہے۔ مگر یہ بات حلق سے نہیں اتر رہی کہ متاثرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ یا پھر ان کو صوبہ سرحد سے نکلنے ہی نہ دیا جائے۔ دوستو! کیا پاکستان کے کسی بھی شہر میں کسی بھی حالت میں مجھے آباد ہونے کا حق حاصل نہیں۔ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو ایک یونٹ میں رکھنے کا فائدہ کیا ہوا۔ اگر مجھے سندھ میں رہنے کے لیے الطاف بھائی کا ویزہ درکار ہوگا تو پھر ایسے پاکستان کو میں اپنا پاکستان کیسے کہوں گا۔ کیا واقعی یہ میرا پاکستان ہے۔ جس کے حکمرانوں کی غلط پالیسویں کی کاشت کی ہوئی فصل کو آج میرے بچوں کے خون سے سینچا جارہا ہے۔ جہاں میرے خون کا سودا کرکے اس پاکستان کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمایا جارہا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود مجھے اس مٹی سے محبت ہے۔ میں اس میں رہنا چاہتا ہوں یہ میرا وطن ہے میرے بچوں کا وطن ہے۔ اس کا نقصان میرا نقصان ہے۔ اگر یہ ملک تقسیم ہوا تو شاید میں زندہ نہ رہوں۔ مگر نجانے اس محب وطن پاکستانی کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ اور کیوں زبردستی اسے دہشت گرد یا باغی بنایا جاررہا ہے۔ ویسے الطاف بھائی آپ سے ایک سوال ہے۔ تقسیم ہند کے دوران آپ بتا سکتے ہیں گاندھی اور جناح کے درمیان یہ بات کہاں طے ہوئی تھی۔ کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان ہجرت کریں گے۔ مگر اس کے باوجود جب وہاں حالات خراب ہوئے تو لاکھوں لوگوں نے ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کی۔ کیا وہ ہجرت بھی غیر قانونی تھی۔ کیا ان لوگوں کو بھی آج تک کیمپوں تک محدود رکھا جاتا تو اچھا ہوتا۔
ہم آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں۔ کسی پاکستانی کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جانے سے روکنا اس کے پاکستانی ہونے سے انکار کے مترادف ہو گا۔
جواب دیںحذف کریںایک بات پوچھنے والی رہ گئی۔ آپ اپنے بلاگ کو اردو سیارہ پر رجسٹر کیوں نہیں کراتے؟
جواب دیںحذف کریں,میرے خیال میں ان سب لوگوں کو شناختی کارڈ کا ایڈریس بدلنا هو گا
جواب دیںحذف کریںوه بھی اگر یه لوگ لمباقایم کرنے کا ارادھ رکھتے هیں
اور اگر کوئی ان پاکستایوں کو غیر پاکستانی کی طرح ٹریٹ کرتا ہے تو جی پھر میرو خیال میں یہی لوگ هوں گو جو طالبان هیں اور کراچی پہنچ چکے هیں
تنگ آمد بجنگ آمد
کراچی تو جہیز میں ملا تھا جی الطاف انکل کو
جواب دیںحذف کریںاس لئے کوئی اور وہاں نہیں گھس سکتا
ہندوستان سے کراچی ابھی تک ہجرت جاری ہے شادی بیاہ کی شکل میں
لیکن پاکستان سے کوئی نہیں آسکتا کراچی۔۔۔
دھت تیرے کی
ذلالت ہےجی ایک نمبر کی
جواب دیںحذف کریںانہی حرامزادوں نے وطن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے
قدرت کا قانون تو دیکھو
جو خود اپنے علاقے میں نہیں آ سکتا دوسروں کو آنے جانے کی اجازت دے رہا ہے
یہ اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے امریکہ کے حضور سجدہ ریز ہیں۔
جواب دیںحذف کریںکراچی کے عوام کی بڑی اکثریت سوات متاثرین اور سرحد کے دیگر علاقوں کے متاثرہ افراد کے لیے دیدہ دل فرش راہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ متاثرین کے لیے سب سے زیادہ امداد کراچی ہی میں اکٹھی کی جا رہی ہے۔ یہ چند مفاد پرست لوگ عوام کے نمائندہ ہر گز نہیں۔ یہ بندوق کے نوک پر کراچی کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی بندوق ہٹتے ہیں قوم ان کی بوٹیاں نوچ لے گی۔
پاکستان سب کا ہے اور ہر پاکستانی کو کسی بھی شہر اور علاقے میں جا کر اپنی مرضی سے رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔
اس موضوع پر گزشتہ چند روز میں چند "بے وقوفوں" کی بولتیاں بند کر چکا ہوں۔