بقول عبدالشکور:۔
" حالی کی بعد شبلی تنقید کے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے ہیں متعدد و دلچسپ اور اہم تنقیدی تصانیف ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ شبلی حیرت انگیز اوصاف کا مجموعہ تھے۔ بلند پایہ مورخ ، ادیب، شاعر ، محقق اور تنقید نگار تھے۔ طبیعت میں بلا کی شوخی اور تیزی موجود تھی بڑے گہرے عالم ، دقیقہ رس فاضل اور سخن سنج ماہر اور ماہر ادبیات تھے۔“
تنقید کے حوالے سے شبلی کی شخصیت اس قدر مقبول ِ عام نہیں جتنی کہ ایک مورخ ، سوانح نگار ، سیرت نگار اور شاعر وغیر ہ کے حوالے سے معروف ہے ۔ فنونِ نظر کے بارے میں بھی شبلی کے تنقیدی افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں خال خال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے۔ جہاں تک ”موازنہ انیس و دبیر“ کا تعلق ہے اس میں شبلی نے مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کی ہے اور ساتھ ہی انیس اور دبیر کے مرثیوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انیس کے کلام کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ اور اس کی مختلف خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ جانبداری کے ساتھ ساتھ اس بحث کا انداز تشریحی اور توضیحی زیادہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ اعلیٰ درجہ کی تنقید کا احساس ضرور ابھرتا ہے۔ ایک اور اہم بات اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں شبلی نے فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر اصولی اورنظریاتی انداز ِ نقد برتا ہے جس میں شبلی کا تنقیدی شعور نمایاں ہے ۔ بہر حال یہ کتاب بھی تنقیدی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔
چونکہ شبلی کا اہم موضوع شعر و شاعری ہے اس سلسلے میں انہوں نے شاعری کے اصولوں پر بھی بحث کی ہے ۔ اصناف سخن کے اصول بھی وضع کئے ہیں ۔ اور شاعروں پر عملی تنقید بھی کی ہے۔ پروفیسر احسان الحق لکھتے ہیں کہ،
” شبلی کی سب سے اہم تنقیدی تصنیف” شعرالعجم“ ہے جس کی تمام جلدوں میں عمل تنقید غالب ہے۔“
اس لحاظ سے ان کی تصنیف شعرالعجم خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے جس کی کل پانچ جلدیں ہیں ان میں چوتھی اور پانچویں جلد تنقیدی اعتبار سے زیادہ اہم ہے۔ جن میں نظریاتی ، اصولی اور عملی تنقید کے دلنشین مظاہر ہیں۔ شاعر ی کے مختلف پہلوئوں پر بصیرت افروز تنقیدی بحث اور اصناف ِ سخن کا تنقیدی تجزیہ ہے۔
تصور ِ شعر:۔
شبلی شعر کو ذوقی اور وجدانی شے قرار دیتے ہیں اسی بناءپر اُن کے خیال میں شاعری کی جامع اور مانع تعریف آسانی سے نہیں کی جا سکتی بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ شعر العجم جلد چہارم میں شبلی کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں۔
” شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے اس لئے اس کی جامع مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اس بناءپر مختلف طریقوں سے اس حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔“
یوں شبلی نے مختلف مثالیں دے کر شاعری کی اہمیت واضح کی ہے ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ احساس سوچنے اور غور کرنے کا نام نہیں ، وہ اس سے مختلف قوت ہے۔ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ بقول شبلی جب انسان کو کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ عبادت بریلوی کہتے ہیں،
” ان کا خیال صحیح ہے کیونکہ احساس کے بغیر شاعری کوئی معنی نہیں رکھتی یہ احساس جب شدید ہوتا ہے تو فطری اور اضطراری طور پر انسان کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں ۔ اسکا نام شعر ہے۔ اس میں شاعرکی شعور کا دخل نہیں ہوتا۔“
شبلی کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبلی شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے شاعری کا کام جذبات میں تحریک پیدا کرنا اور ان کو ابھارنا ہے۔ مگر اس کا مطلب ہیجان اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لئے جذبات ضروری ہیں اور وہ شاعری کو جذبات کے برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
شاعری اور جمالیاتی پہلو:۔
شبلی کے خیال میں تمام عالم ایک شعر ہے زندگی میں شاعری بکھری پڑی ہے۔ جہاں زندگی ہے وہاں شاعری موجود ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وہ دیکھتے ہیں کہ ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ شعر ہے ۔ اس بناءپر فلک نیلگوں ، نجم درخشاں ، نسیم سحر، تبسم گل، خرام صبا، نالہ بلبل، ویرانی دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے۔ اور اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ شبلی کے شعر و شاعری پر مبنی تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں، اسی لئے ڈاکٹر سید عبداللہ ”اشارات تنقید“ میں لکھتے ہیں۔ کہ
” یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے۔“
شبلی کا مزاج فلسفیانہ ہے اور انہوں نے مغرب سے بھی کسی قدر استفادہ کیا ہے مگر جمالیاتی حس ہی کی وجہ سے تمام زیر غور مباحث میں ان کا رجحان مشرقی نظریہ تنقید کی طرف ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔
” شاید یہی وجہ ہے کہ وہ (شبلی) جمالیاتی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں چنانچہ ان کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظرآتی ہے۔“
شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنون ِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی ، مصوری ، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں۔ مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعر کے الفاظ سے ایک موثر منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے یہی حسن کاری کے احساس اور تاثر کو غیر شاعر کے لئے اثر انگیزبنانا شاعر ی کے جمالیاتی پہلو کا مظہرہے جو غائب کے جلوے دکھاتا ہے۔
دل میں احساسات اور تاثرات یا حسن کاری کی جو لہریں اُٹھتی ہیں انہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھال دینا شاعری کا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں شبلی نے صاف صاف لکھا ہے کہ اصلی شاعر وہی ہے جس کو سامعین سے کچھ غرض نہ ہو ۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ شاعر عوام کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا ۔ اس کی مخصوص کیفیات اسے شعر کی تخلیق کے لئے مجبور کرتی ہیں۔
اس کے پیش نظر تو اپنی داخلی کیفیات کا جمالیاتی اظہار ہوتا ہے اور یہی شاعری کی اصل روح ہے۔ شبلی خود شاعری کی صراحت میں مزید یہ کہتے ہیں کہ ایک عمدہ شعر میں بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں ۔ اس میں وزن ہوتا ہے محاکات ہوتے ہیں خیال بندی ہوتی ہے۔ الفاظ سادہ اور شعر ہوتے ہیں۔جمالیاتی اظہار کے ضمن میں شعر وشاعری کی اصل نوعیت کو بعد ازاں واضح حیثیت دیتے ہوئے شبلی اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ جہاں وہ یہ الفاظ ادا کرتے ہیں۔
”حقیقت یہ ہے کہ شاعری دراصل دو چیزوں کا نام ہے محاکات اور تخیل ان میں سے ایک بات بھی پائی جائے تو شعر کہلانے کا مستحق ہوگا۔ باقی اوصاف یعنی سلاست ، صفائی ، حسن بندی وغیر ہ شعر کے اجزائے اصلی نہیں بلکہ عوارض و مستحسنات ہیں۔“
اس سے صا ف ظاہر ہوتا ہے کہ شبلی کی نظرشعر و شاعری کی بنیادی عناصر تک پہنچتی ہے اور وہ فروعی کی بجائے انہی بنیادی عناصر کو اہمیت دیتے ہیں۔
محاکات کیا ہیں۔
محاکات کی تعریف کے ضمن میں مولانا شبلی ”شعرالعجم‘ ‘ میں رقمطراز ہیں۔
” محاکات کے معنی کس چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے ۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیاءکے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ ۔۔تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔“
اس کی وضاحت شبلی ایک مثال سے یو ں کرتے ہیں کہ ہوس پیشہ عاشقوں کو اکثر یہ واردات پیش آتی ہے کہ کسی معشوق سے دل لگاتے ہیں چند روز کے بعد اس کے بے مہریوں اور کج ادائیوں سے تنگ آکر چاہتے ہیں کہ اس کو چھوڑ دیں اور کسی اور سے دل لگائیں ۔ پھر رک جاتے ہیں کہ ایسا دل فریب معشوق کہاں ہاتھ آئے گا۔ اس طر ح آپ ہی آپ روٹھتے اور منتے ہیں ۔شاعر اس حالت کو یوں ادا کرتا ہے۔
صدباز جنگ کردہ بہ اُو صلح کردہ ایم
اُوراخبر نبودہ صلح و زجنگ ما
اُوراخبر نبودہ صلح و زجنگ ما
اب دیکھئے بھلا اس حالت کو ایک مصور اپنی تصویر کے ذریعے سے کیسے ادا کر سکتا ہے جبکہ شاعری مصوری یا محاکات ہر خیال ، ہر واقعہ اور ہر کیفیت کی تصویر کھینچ سکتی ہے۔اسی طرح ایک بڑا فرق عام مصوری اور شاعرانہ مصوری محاکات میں یہ ہے کہ تصویر کی اصلی خوبی تو یہ ہے کہ جس چیز کا نقش بنایا جائے اس کا ایک ایک خال و خط دکھایا جائے ورنہ تصویر ناتمام اور نامکمل ہوگی لیکن شاعرانہ مصوری کے ذریعے ایک شاعر اصل شے کی تمام جزئیات نمایاں کئے بغیر اصل سے بڑھ کر اثر پیدا کر سکتا ہے۔ مثلاً سبزہ پر شبنم دیکھ کر وہ اثر پیدا نہیں ہوسکتا جو اس شعر سے ہو سکتا ہے۔
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
تصویر کا اصلی کمال یہ ہے کہ اصل کے مطابق ہو اور اگر مصور اس امر میں کامیاب ہو گیا تو اس کو کامل ِ فن کا خطاب مل سکتا ہے۔ لیکن شاعر اس مرحلے پر دو ہری مشکل میں ہوتا ہے کیونکہ نہ اصل کی پوری پوری تصویر کشی کرتا ہے ۔ اور نہ اصل سے دور جا سکتا ہے۔ اس موقع پر اس کو تخیل سے کام لےناپڑتا ہے و ہ ایسی تصویر کھنچتا ہے جو اصل سے آب وتاب اور حسن و جمال میں بڑھ کر ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ قوتِ تخیل سے سامعین پر اثر ڈالتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے جسے لوگوں نے گہری نظر سے نہیں دیکھا تھا اس لئے اس کا حسن نمایا ں نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی ”اردو تنقید کا ارتقا “ میں اس معاملے میں شبلی کا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،
” ارسطو، ان (شبلی) کے خیال میں صرف محاکات کو شاعری بتاتا ہے لیکن وہ ارسطو کے خیال سے متفق نہیں ہیں وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ بہت سے اشعار میں صرف محاکات ہی ہوتے ہیں۔ اور ان کو شعر مانا جاتا ہے۔ لیکن اگر تخیل بھی اس میں شامل ہو تو صحیح معنوں میں شعر ہے۔“
اور اس لئے محاکات اور تخیل کا چولی دامن کا ساتھ کہا جا سکتا ہے۔
تخیل شبلی کی نظر میں:۔
تخیل کی تعریف کے سلسلے میں شبلی سب سے پہلے ہنری لوئیس کے الفاظ یوں قلم بند کرتے ہیں۔
”وہ قوت جس کا کام یہ ہے کہ ان اشیاءکو جو مرئی نہیں ہیں یا جو ہمارے حواس کی کمی کی وجہ سے ہم کو نظر نہیں آتیں ، ہماری نظر کے سامنے کر دے۔“
لیکن شبلی کے خیال میں یہ تعریف پوری جامع اور مانع نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی چیزوں کی منطقی جامع اور مانع تعریف ہو بھی نہیں سکتی ۔ بہر طور شبلی کے نزدیک تخیل دراصل قوتِ اختراع کا نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ اور شاعری میں قوت ِ تخیل کی یکساں ضرورت ہے۔ شاعر ان موجودات سے بھی کام لیتا ہے جو مطلق موجود نہیں۔ جبکہ فلسفہ کے دربار میں ہما، سیمرغ، گائو زمین، تخت سلیمان کی مطلق قدر نہیں لیکن یہی چیزیں ایوان ِ شاعری کے نقش و نگارہیں۔
شاعر کے سامنے قوت تخیل کی بدولت تمام بے حس اشیا ء، جاندار چیزیں بن جاتی ہیں اس کے کانوں میں ہر طرف سے خوش آیند صدائیں آتی ہیں۔ زمین، آسمان ، ستارے بلکہ ذرہ ذرہ اُس سے باتیں کرتا ہے۔
اس بحث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تخیل شاعری کا ایک بڑا ہی اہم عنصر ہے اس کے بغیر شاعری کو شاعری کی صورت اختیار کرنا نصیب نہیں ہوتا ۔ تخیل ہی کی بدولت شاعری وہ مخصوص شکل اختیار کرتی ہے۔ جس میں تاثر اور جمال کا سحر ہوتا ہے۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اگر اس میں تاثر کا سحر نہ ہو تو وہ بے مقصد اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مولانا شبلی نے تخیل کا جو تصور پیش کیا ہے اس پر سب کے سب نقاد متفق ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا نے ”تنقید اور جدید تنقید “ میں مولانا شبلی کو متعقدین کی صف میں سے اُٹھا کر اکابرین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
شعر اور مقصدیت:۔
حالی کے زمانے کی تنقید نے شاعری کو مواد کی ترسیل کا ایک ذریعہ جانا تھا۔ مراد یہ تھی کہ نظریہ خیال یا منصوبہ اپنی ترسیل کے لئے شاعری کو برئوے کار لاتا ہے۔ شبلی نے اس سے ہٹ کر انقلابی انداز میں یہ موقف اختیار کیا کہ تخلیق کاری کا عمل ترسیل سے زیادہ دریافت کے عمل سے منسلک ہے۔ شاعر کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے اندر کی دنیا کا کیا عالم ہے۔ وہ تو بس تخیل کے اُڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اپنے اندر کے ان دیکھے براعظم کی سیاحت کرتا ہے۔ تخلیقی عمل کے بارے میں شبلی کا یہ بیان سرسید اور ان کے مدرسہ فکر اس نظریے کو مسترد کر تا ہے جو پہلے سے تیار شدہ کسی مواد کی بذریعہ شعر تشہیر کرنے پر زور دیتا ہے۔ شبلی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تخلیق سے قبل شاعر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔
تنقید کا یہ رویہ ظاہر ہے اُس دور کی عام تنقید کی افادیت پسندی اور منصوبہ بندی کے رویے سے قطعی مختلف تھا اس لئے ہم بڑی آسانی سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ شبلی، حالی کی مقصدیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر بات اتنی آسان بھی نہیں ۔ شبلی کے واضح نظریات کو ہم ان کی تنقیدی اُپچ تو قرا ر دے سکتے ہیں۔ کوئی ردعمل قرار نہیں دے سکتے۔ اُن کے نزدیک شاعری اخلاق کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
” شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا ، شاعری سے بہتر کوئی آلہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اس بناءپر اگر شاعری کے ذریعے سے اخلاقی مضامین بیان کئے جائیں اور شریفانہ جذبات مثلاً شجاعت ، غیرت ، آزادی کو اشعار سے اُبھارا جائے تو کوئی اور طریقہ اس کی برابر ی نہیں کر سکتا۔“
پھر اپنے تنقیدی نظریات کو پیش کرتے ہوئے شبلی نے فلسفیانہ بحثیں کی ہیں لیکن ان مباحث میں سماجی پہلو ئوں پر زور کم دیا ہے۔ حالانکہ اس کااحساس ضرور ہے کہ ادب و شعر سماجی اہمیت کے مالک ہوتے ہیں۔ جب انہیں یہ تسلیم ہے کہ ہر ملک کی قومی ملی خصوصیات کے اثرات ان کے شعر و ادب پر بھی پڑتے ہیں۔ تو اُنہیں اس عمل کے تحت ردعمل کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے تھا۔ اُن کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن انہیں شاعری کی سماجی اہمیت کا احساس ضرور ہے جس طرف وہ خود جگہ جگہ اشارے کرتے ہیں۔
حرف آخر
الغرض شعر العجم بنیادی طور پر ایک تنقیدی کتاب نہیں ہے۔ اگر وہ خالص تنقیدی کتاب ہوتی تو تنقیدی پہلو اُس میں نسبتاً زیادہ نمایاں ہوتا۔ مگر شبلی کی تنقیدی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں اردو میں ا ن کی تنقید نگاری اپنا ممتاز مقام رکھتی ہے اُن کی تنقیدی لفاظی میں ایک ایسا اسلوب پایا جاتا ہے جس سے اب تک اردو تنقید نا آشنا تھی۔
i am so sorry to comment in English, i beg you not to bother please.... i liked this post very much ,, keep it up
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی کاوش ہے۔۔۔
جواب دیںحذف کریں