جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے
کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا
میرا بھلا ہو کچھ مرے ماں باپ کا بھلا
جاتا ہے جس جگہ بھی کوئی تھرڈ ڈویژنر
کہتے ہیں سب کہ آگیا تو کس لیے ادھر
تو چل یہاں سے تیری نہ ہوگی یہاں گزر
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر ہوں میں ، مگر
یار رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
ہر شخص مجھ کو آنکھ دکھاتا ہے کس لیے
میں پاس ہو گیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں
تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں
جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں
میں خاک میں ملا ہوا مٹی کا تیل ہوں
اوریونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائنری
صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری
اخبار میں نے دیکھا تو مجھ پر ہوا عیاں
ہوتے ہیں پاس وہ بھی نہ دیں جو کہ امتحاں
یعنی کہ آنریری بھی ملتی ہیں ڈگریاں
میں جس زمیں پہ پہنچا وہیں پایا آسماں
ہے آسماں کی گردشِ تقدیر میرے ساتھ
ڈگری ہے اک گناہوں کی تحریر میرے ساتھ
گر ہو سکے تو مانگ لوں اک عمر کو اُدھار
اور امتحان جس کا نہیں کوئی اعتبار
اس امتحاں کی بازی لگاؤں گا بار بار
کہتے ہیں لوگ اس کو یہ مچھلی کا ہے شکار
یہ امتحان مچھلی پھنسانے کا جال ہے
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
واہ واہ بہت ہی خوب!
جواب دیںحذف کریںدل باغ باغ ہوگیا اتنی شگفتہ اور پیاری نظم پڑھ کر۔
خوش رہیے وہاب صاحب!
شاعرِ موصوف کا نام ضمیر جعفری کے نام کے قریب قریب ہے بلکہ پہلی نظر میں تو میں نے ضمیر جعفری ہی پڑھا تھا۔
Jo b ho meri to bayizati ho gai
جواب دیںحذف کریں