بدھ, جولائی 13, 2011

تھرڈ ڈویژن (سید محمد جعفری)۔

جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے
کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا
میرا بھلا ہو کچھ مرے ماں باپ کا بھلا

جاتا ہے جس جگہ بھی کوئی تھرڈ ڈویژنر
کہتے ہیں سب کہ آگیا تو کس لیے ادھر
تو چل یہاں سے تیری نہ ہوگی یہاں گزر
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر ہوں میں ، مگر
یار رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
ہر شخص مجھ کو آنکھ دکھاتا ہے کس لیے

میں پاس ہو گیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں
تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں
جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں
میں خاک میں ملا ہوا مٹی کا تیل ہوں
اوریونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائنری
صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری

اخبار میں نے دیکھا تو مجھ پر ہوا عیاں
ہوتے ہیں پاس وہ بھی نہ دیں جو کہ امتحاں
یعنی کہ آنریری بھی ملتی ہیں ڈگریاں
میں جس زمیں پہ پہنچا وہیں پایا آسماں
ہے آسماں کی گردشِ تقدیر میرے ساتھ
ڈگری ہے اک گناہوں کی تحریر میرے ساتھ

گر ہو سکے تو مانگ لوں اک عمر کو اُدھار
اور امتحان جس کا نہیں کوئی اعتبار
اس امتحاں کی بازی لگاؤں گا بار بار
کہتے ہیں لوگ اس کو یہ مچھلی کا ہے شکار
یہ امتحان مچھلی پھنسانے کا جال ہے
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

جمعہ, جولائی 08, 2011

شعرالعجم (شبلی نعمانی)۔

 بقول عبدالشکور:۔
" حالی کی بعد شبلی تنقید کے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے ہیں متعدد و دلچسپ اور اہم تنقیدی تصانیف ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ شبلی حیرت انگیز اوصاف کا مجموعہ تھے۔ بلند پایہ مورخ ، ادیب، شاعر ، محقق اور تنقید نگار تھے۔ طبیعت میں بلا کی شوخی اور تیزی موجود تھی بڑے گہرے عالم ، دقیقہ رس فاضل اور سخن سنج ماہر اور ماہر ادبیات تھے۔“    
 تنقید کے حوالے سے شبلی کی شخصیت اس قدر مقبول ِ عام نہیں جتنی کہ ایک مورخ ، سوانح نگار ، سیرت نگار اور شاعر وغیر ہ کے حوالے سے معروف ہے ۔ فنونِ نظر کے بارے میں بھی شبلی کے تنقیدی افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں خال خال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے۔ جہاں تک ”موازنہ انیس و دبیر“ کا تعلق ہے اس میں شبلی نے مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کی ہے اور ساتھ ہی انیس اور دبیر کے مرثیوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انیس کے کلام کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ اور اس کی مختلف خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ جانبداری کے ساتھ ساتھ اس بحث کا انداز تشریحی اور توضیحی زیادہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ اعلیٰ درجہ کی تنقید کا احساس ضرور ابھرتا ہے۔ ایک اور اہم بات اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں شبلی نے فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر اصولی اورنظریاتی انداز ِ نقد برتا ہے جس میں شبلی کا تنقیدی شعور نمایاں ہے ۔ بہر حال یہ کتاب بھی تنقیدی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔

پیر, جون 20, 2011

مقدمۂ شعر و شاعری (الطاف حسین حالی)۔

بقول احسن فاروقی
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کل کے نقاد باوجود ڈگریوں کے جوا ن کے علم کی سند ہے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں کسی طرح حالی سے آگے نہیں بڑھ پائے تو ہمارے دل میں حالی کی قدر بڑھتی ہے۔ ۔۔۔ ۔ حالی کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس موضوع ( یعنی ادب اور زندگی کا رشتہ) پر غور کرنے والوں کے لئے راہ کے پہلے نقوش بنائے۔
الطاف حسین حالی
  یوں تو مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت کئی لحاظ سے مطالعہ کے قابل ہے۔ آزاد او ر شبلی کی طرح وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ، سوانح نگار اور نقاد ہیں۔ وہ ایک منفرد شاعر، صاحب طرز ادیب ، باذوق سوانح نگار اور وسیع النظر نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ حالی کا تعلق سرسید کی تحریک اور سرسید کی شخصیت سے بہت زیادہ تھا۔ اور سرسید کے زیر اثر ہی حالی نے مسدس حالی تصنیف کی۔ سرسید کی رفاقت ، مولانا محمد حسین آزاد کی دوستی اور محکمہ تعلیم کی ملازمت کے دوران انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کے مطالعے نے حالی کو اردو شاعری میں نئے رجحانات سے آشنا کیا۔ چنا نچہ انھوں نے پرانی طرز شاعری کو ترک کرکے نئے اسلوب شعر کی طرف توجہ کی اور کچھ اس طرح توجہ کی اردو میں جدید شاعری کے اولین استاد کہلائے، خود نئے انداز میں شعر کہنے شروع کیے۔ اور دوسروں کو نئے شعر کی طرف راغب کیا۔ اُ ن کے تنقیدی نظریات مختلف کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن مقدمہ شعر و شاعری اُ ن کی تنقید کی باقاعدہ کتا ب ہے۔ اُنھوں نے مغربی تنقید کے اصولوں کو مشرق میں رواج دینے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ مختلف اصنافِ سخن پر بھی بحث کی ۔ مقدمہ شعر و شاعری کے دو حصے ہیں۔

ہفتہ, جون 11, 2011

ٹی ۔ایس ایلیٹ

ٹی ۔ایس ایلیٹ
 ٹی ایس ایلیٹ  امریکہ کے شہر سینٹ لوئیس میں پیدا ہوا۔ 1914ءمیں اس نے انگلستان ہجرت کی اور 1937ءمیں باقاعدہ انگلستان کی شہریت اختیار کی۔ اس کا تعلق ان انگریز خاندانوں سے تھا جو سترہویں صدی میں امریکہ آ بسے تھے۔ اس کی ماں مصنفہ اور شاعرہ تھیں۔ ایلیٹ بچپن ہی سے نہایت ذہین تھا۔ 1900ءمیں اُسے سکول سے لاطینی زبان کی استعداد کے لئے طلائی تمغہ دیا گیا۔1902ءسے 1910ءتک وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا۔ جہاں اس نے کلاسیکی ادب جرمن ادب ، فرانسیسی اور انگریز ی زبان و ادب کا تقابلی مطالعہ کیا۔ یہیں سے وہ دانتے اور ”ڈ ن“ جیسے شاعروں سے روشناس ہوا۔ جس کا اثر اس کے بعد کی تخلیقات پر گہرا ہے۔ اور اس یونیورسٹی میں اُسے Iriving Babbitاور جارج سندینہ کے روایت کے بارے میں لیکچر سننے کا موقع ملاِ اور وہ روایت کو اپنے نظام ِ فکر کے اندر شامل کرنے کے قابل ہوا۔ اس زمانے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈرامے کے بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ اسی لئے ایلیٹ نے ڈرامے لکھنے کی کوشش بھی کی۔ تخلیقی لحاظ سے ایلیٹ کے لئے یہ دور بڑا زرخیز تھا اور اُسے ایک بہترین شاعر کے طور پر مانا گیا۔

جمعرات, جون 02, 2011

متھیو آرنلڈ

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
آرنلڈ اپنے عہد کے اخلاقیات کا نقاد و معترض تھا وہ شاعر بھی تھا اورنقاد بھی لیکن ان اوصاف کے علاوہ وہ نقادوں کا نقاد اور معاشرے کا بھی نقاد تھا۔ 
متھیو آرنلڈ
 متھیوآرنلڈ کو نہ صرف اعلیٰ ادیب کی حیثیت سے امتیاز حاصل ہے بلکہ اس سے بڑھکر وہ ایک منفرد نقاد کی حیثیت سے ممتاز رہے ہیں۔ مغربی ادب میں لانجائنس اور کولرج کے نظریات کے تحت تخلیق کار اور ناقدین رومانوی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ رومانیت اپنی انتہا میں جس اِنتشاری کیفیت سے دوچار ہوا کرتی ہے اور قاری اور خالق کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال مغربی ادب پر چھائی ہوئی تھی۔
جس طرح ہر عمل کا ردعمل لازمی ہے اس طرح رومانیت کے ردعمل کے طور پر آرنلڈ نے اپنے تنقیدی نظریات پیش کئے ۔ آرنلڈ روایت، کلاسک اور تہذیب کا دلدادہ تھا اور اس سلسلے میں اس نے جن مباحث کا آغاز کیا ان کی گونج آج بھی ادبی فضاءمیں موجود ہے۔ اور اس مکتبہ فکر کا پروردہ ٹی ایس ایلیٹ اہم نقاد مانا جاتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ کولرج کی طرح آرنلڈ کا شمار بھی اُن ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد کے مزاج کو بدل ڈالا سکاٹ جیمز کا کہنا ہے کہ آرنلڈ اتنا بڑا نقاد ہے کہ تقریباً پچاس سال تک ادبی فضاءپر اُن کے خیالات چھائے رہے۔اور ہربٹ پال کا یہ کہنا بھی بجا معلوم ہوتا ہے کہ
 آرنلڈ نے صرف خود ہی کتابوں پر تنقید نہیں کی بلکہ اس نے دوسروں کو بھی تنقید کرنا سکھایا۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...