برصغیر دیار مقدس سے خاصے فاصلے پر ہے اور انیسویں صدی کے آخر تک سفر کی مناسب سہولتیں بھی میسر نہ تھیں ۔ چنانچہ کم زائرین کو یہ سہولتیں اور سعادت نصیب ہوتی تھی ۔ اس دور نے آتش شوق کو فروزاں کئے رکھا۔ اور حج کے سفر نامے لکھے گئے تو انہیں وصل کا ایک ذریعہ سمجھ کر پڑھا گیا وہ تمام زائرین جو مقدس مقامات دیکھنے کے بعد لوٹتے ہجر و فراق کی کیفیت سے بھی گزرتے اور اس بیان نے حج کے سفر ناموں کے اسلوب کو گداز بنا دیا ۔ اس عہد کے قاری کے لئے حج کے سفر نامے نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھے۔ اور پھر ذرائع آمدورفت کی بدولت یہ سفر آسان ہواتو حج کے سفر نامے داخلی کیفیت سے آشنا ہوئے ۔ حج کے ابتدائی سفر ناموں میں معلومات اور مناسک کی تفصیل ہوتی تھی۔ موجودہ دور کے حج کے سفر ناموں میں تاثرات کی بہتات ملتی ہے۔ آج زبان و بیان کا قرینہ اور سلیقہ خالق کو اپنی باطنی تجربات تحریری شکل میں لانے میں مدد دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ابتدائی سفر نامے ”کیا ہے“ کی تفصیل تھے جبکہ موجودہ حج ناموں میں ”کیا پایا “ کی تشریح ملتی ہے۔ اس دور کے حج نامے آپ بیتی کے قریب ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے اُ ن کا اندازڈائری جیسا ہے اور مقصد محسوسات ، قلب اور تجربات روحانی کا بیا ن کرنا ہے۔
ان حج ناموں میں ذات کی خود نمائی کا احساس نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر جگہ ذات کی نفی کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔ عاجزی انکساری حج ناموں کی بنیادی خصوصیت رہی ہے۔ شور ش کاشمیری کا حج نامہ ” شب جائے کہ من بودم‘ ‘ غلام ثقلین کا ” ارض ِ تمنا“ عبداللہ ملک کا ” حدیث دل“ اور ممتاز مفتی کا لبیک جدید حج ناموں کی چند نمایاں جہتیں پیش کرتی ہیں۔
لبیک :۔
ممتاز مفتی کا ”لبیک“ منفرد حیثیت و اہمیت کا حامل ہے یہ ایک باغی شخص کی قلبی واردات ہے جو اسرار کھولنا چاہتا ہے ۔ پردہ اٹھانا چاہتا ہے ہر لمحہ قاری کو اپنا ہمنوا بنائے رکھتا ہے ۔ بقول ظہور احمد اعوان
مفتی ایک مہم جو کی طرح اپنی ذات کی تسخیری مہم پر رواں تھا۔ اس نے جگہ جگہ رسمی تصورات پر چوٹیں کی ہیں ۔ فرسودہ رسومات پر طنزکے تیر برسائے ہیں ۔ خارجی رسمیات سے آگے گزر کر داخلی اور روحانی دنیا میں جھانکنے کی کوشش بھی کی ہے۔