رومانوی تحریک کو عام طور پر سر سید احمد خان|سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ کیونکہ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت ، منطقیت ، استدالیت اور معنویت سے بوجھل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تمدنی اقدار سے گراں بار تا۔اس جذبے اور احسا س کے خلاف رومانی نوعیت کا ردعمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کی رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں بحث کریں ، ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
رومانیت کا مفہوم
رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔
مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔
١) عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا
٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔
٣) عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔
رومانیت کا مفہوم
رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔
مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔
١) عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا
٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔
٣) عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔