جمعہ, مئی 18, 2012

اردو ادب کا دکنی دور

محمد قلی قطب شاہ
یوں تو مسلمانوں نے دکن پر کئی حملے کیے لیکن علائوالدین خلجی کے حملے نے یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن اور کلچر کو کافی حد تک متاثر کیا۔ مرکزسے دور ہونے کی وجہ سے علائو الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دارالسلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن، شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بعد میں جب بہمنی سلطنت کمزور ہوئی تو کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی حکومت اور گولکنڈ ہ کی قطب شاہی حکومت شامل تھی۔ ان خود مختار ریاستوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے علم و فضل اورشعراءو ادبا دکن پہنچے۔ آیئے اب بیچاپور کی عادل شاہی سلطنت کے تحت اردو کے ارتقا ءکا جائزہ لیں۔
بیجا پور کی عادل شاہی حکومت:۔
عادل شاہی حکومت کی بنیاد 895ءہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہلا حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ بہمنی ریاست کے زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور نو بادشاہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے۔ ابتدائی صدی میں دکنی زبان کی ترقی کے لیے کچھ خاص کام نہیں ہوا اور ایرانی اثرات ، شیعہ مذہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ۔ لیکن اس کے برعکس دور عادل شاہی کی شاہی سرپرستی دوسری صدی میں اردو و ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان کے جانشین محمد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے جانشین علی عادل شاہ ثانی نے دکنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے ادب میں درباری رنگ پیدا ہوا۔ اصناف سخن کی باقاعدہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہوا۔اس کے علاو ہ صوفیا نے بھی یہاںکی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔
عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و ترویج کے مختصر جائزے کے بعد آئیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر تذکرہ کریں تاکہ زبان و ادب کے ارتقاءکا اندازہ ہو سکے۔

اتوار, مئی 13, 2012

ماں

اچانک پھر بچایا ہے کسی نادیدہ ہستی نے
مگر کیسے ہوا یہ معجزہ معلوم کرنا ہے
تجھے کچھ یاد ہے کل کب تجھے میں یاد آیاتھا
مجھے اے ماں! ترا وقتِ دعا معلوم کرنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھولوں کی ہے مہکار مگر تیری کمی ہے
چڑیوں کی چہکار مگر تیری کمی ہے
قسمت نے کیا ہے دولتِ ممتا سے ہے محروم
دولت کا ہے انبار مگر تیری کمی ہے
ہر درد میں ، تکلیف میں اور رنج و الم میں
اے میری مددگار، مگر تیری کمی ہے
ہر آن مرے سر پہ دعاؤں کے وہ سائے
ہے سایۂ اشجار مگر تیری کمی ہے
کلشن میں گلابوں کی کمی کوئی نہیں ہے
کہتا ہے دلِ زار مگر تیری کمی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار جنت سے اس لیے ہے مجھے
یہ میری "ماں" کے پاؤں چومتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کامیابیاں ،، عزت ، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہے میری لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کاسارا نظام تم سے ہے
جہاں جہاںہے مری دشمنی ، سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے مرا احترام ، تم سے ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار ، مری ماں
ہے میرے لیے سایۂ دیوار میری ماں
نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک
بس پیارہے ، ہاں پیار ہے ، بس پیار مری ماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخالف وقت اور ہر بدگماں کوروک رکھا ہے
ہر اک حاسد کی زہریلی زباں کو روک رکھا ہے
اترتی ہی نہیں ہے اس لیے مجھ پر کوئی آفت
مری ماں کی دعا نے آسماں کو روک رکھاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لیے
ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کبھی مضطرب نہیں ہوگا
ماں کا سایہ جیسے میسر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے چہرے پہ ممتا کی فراوانی چمکتی ہے
میں بوڑھاہورہا ہوں پھر بھی پیشانی چمکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وراثت میں یہی جاگیر افضل
میں چھوٹا ہوں میرے حصے میں ماں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات, مئی 03, 2012

اردو زبان کی ابتداء

زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
دکن میں اردو:۔
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
” عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداءکا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاءسے ہے۔ ابتداءسے نہیں۔“

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...