میرا تعلق دنیا کے اس خطے سے ہے جس کی نسوار پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اب آپ پوچھیں گے بھلا نسوار اور رمضان کا کیا تعلق تو جناب جہاں کی نسوار اتنی مشہور ہو وہاں پر نسوار کھانے والے کتنے زیادہ ہوں گے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جب رمضان آتا ہے تو پھر ان نسواری حضرات کی جو حالت ہوتی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ میرے شہر میں سب سے زیادہ لڑائیاں جھگڑے اسی مہینے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نسوار پر پابندی ہوتی ہے۔ مجال ہے جو آپ کسی سے بلند آواز میں بات کر سکیں ایک طرف تو روزے کی دہشت دوسری نسوار سے دوری ہر شخص منہ میں آگ لیے رہتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں بہت چھوٹا تھا تو اس دور میں سخت گرمیوں میں رمضان کا مہینہ آتا تھا۔ ابا اس وقت جوان جہان بندے تھے کافی غصے والے تھے ہمارا شور وہ کسی طور برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ افطاری کے وقت ہم لڑتے اور وہ ہمیں مارتے اس لیے اس کا حل اماں نے یہ نکالا کہ افطاری کے وقت ہمیں ان سے دور کر دیا جائے جب آرام سے کھانا کھا چکتے تو تکیہ سے ٹیک لگا کر نسوار کی پڑیا نکالتے ۔ ایسے میں ان کے چہرے کی بشاشت دیکھ کر ہمیں پھر سے شرارت کی سوجھتی اور ہم بہن بھائی پھر سے کسی بات پر لڑنا شروع کر دیتے ۔ مگر نسوار ان کے منہ میں داخل ہوا اور ہم چپ اس لیے کہ اس وقت کا شور شاید ہماری جان بھی لے سکتا تھا۔ اب ابا میں وہ دم خم نہیں رہا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اپنے نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کا شور انہیں برا کیوں نہیں لگتا۔ اب بھی وہی نسوار کا نشہ ہوتا ہے مگر ابا کا غصہ نجانے کہاں غائب ہو گیا ہے۔ شاید سچ ہے کہ اولاد کی اولاد انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے۔
بچپن میں رمضان کے مہینے میں ہماری دادی کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہوتی تقریبا ایک بالٹی شربت پینے کے بعد جب وہ نسوار منہ میں رکھتی تو سب کھایا پیا باہر آ جاتا۔ یوں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتیں سارا رمضان اسی طرح سے گزرتا۔ دادا چلم کڑکڑاتے اور دادی بے چاری ایک کونے میں پڑی گرمی کو کوس رہی ہوتی۔ اسی مہینے میں ساس بہو کی لڑائیاں بہت زوروں پھر ہوتیں اور آج بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر بوڑھی عورتیں نسوار سے شغف فرماتی ہیں یوں تو پہلے سے ہی دونوں حریفوں کے درمیان حالات کشیدہ رہتے ہیں لیکن رمضان سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔ یہ رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں ہم ان چیزوں کو چھوڑ سکتے ہیں مگر نجانے کیوں میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے میں نسوار کا استعمال اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ سپیشل رمضانی پڑیاں تیار ہوتی ہے۔ جس میں ایک دو خوراکیں ہوتی ہیں۔ افطاری اور سحری میں اسی سے تواضع کی جاتی ہے۔ میں اکثر دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کیا ہے اس نسوار میں جو تم لوگ اس کے اتنے دیوانے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا ہے ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں۔