جمعرات, اگست 27, 2009

نسوار اور رمضان

میرا تعلق دنیا کے اس خطے سے ہے جس کی نسوار پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اب آپ پوچھیں گے بھلا نسوار اور رمضان کا کیا تعلق تو جناب جہاں کی نسوار اتنی مشہور ہو وہاں پر نسوار کھانے والے کتنے زیادہ ہوں گے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جب رمضان آتا ہے تو پھر ان نسواری حضرات کی جو حالت ہوتی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ میرے شہر میں سب سے زیادہ لڑائیاں جھگڑے اسی مہینے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نسوار پر پابندی ہوتی ہے۔ مجال ہے جو آپ کسی سے بلند آواز میں بات کر سکیں ایک طرف تو روزے کی دہشت دوسری نسوار سے دوری ہر شخص منہ میں آگ لیے رہتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں بہت چھوٹا تھا تو اس دور میں سخت گرمیوں میں رمضان کا مہینہ آتا تھا۔ ابا اس وقت جوان جہان بندے تھے کافی غصے والے تھے ہمارا شور وہ کسی طور برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ افطاری کے وقت ہم لڑتے اور وہ ہمیں مارتے اس لیے اس کا حل اماں نے یہ نکالا کہ افطاری کے وقت ہمیں ان سے دور کر دیا جائے جب آرام سے کھانا کھا چکتے تو تکیہ سے ٹیک لگا کر نسوار کی پڑیا نکالتے ۔ ایسے میں ان کے چہرے کی بشاشت دیکھ کر ہمیں پھر سے شرارت کی سوجھتی اور ہم بہن بھائی پھر سے کسی بات پر لڑنا شروع کر دیتے ۔ مگر نسوار ان کے منہ میں داخل ہوا اور ہم چپ اس لیے کہ اس وقت کا شور شاید ہماری جان بھی لے سکتا تھا۔ اب ابا میں وہ دم خم نہیں رہا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اپنے نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کا شور انہیں برا کیوں نہیں لگتا۔ اب بھی وہی نسوار کا نشہ ہوتا ہے مگر ابا کا غصہ نجانے کہاں غائب ہو گیا ہے۔ شاید سچ ہے کہ اولاد کی اولاد انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے۔
بچپن میں رمضان کے مہینے میں ہماری دادی کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہوتی تقریبا ایک بالٹی شربت پینے کے بعد جب وہ نسوار منہ میں رکھتی تو سب کھایا پیا باہر آ جاتا۔ یوں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتیں سارا رمضان اسی طرح سے گزرتا۔ دادا چلم کڑکڑاتے اور دادی بے چاری ایک کونے میں پڑی گرمی کو کوس رہی ہوتی۔ اسی مہینے میں ساس بہو کی لڑائیاں بہت زوروں پھر ہوتیں اور آج بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر بوڑھی عورتیں نسوار سے شغف فرماتی ہیں یوں تو پہلے سے ہی دونوں حریفوں کے درمیان حالات کشیدہ رہتے ہیں لیکن رمضان سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔ یہ رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں ہم ان چیزوں کو چھوڑ سکتے ہیں مگر نجانے کیوں میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے میں نسوار کا استعمال اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ سپیشل رمضانی پڑیاں تیار ہوتی ہے۔ جس میں ایک دو خوراکیں ہوتی ہیں۔ افطاری اور سحری میں اسی سے تواضع کی جاتی ہے۔ میں اکثر دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کیا ہے اس نسوار میں جو تم لوگ اس کے اتنے دیوانے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا ہے ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں۔

منگل, اگست 18, 2009

کتابوں سے آگے

میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ میں زمین پر سب سے فرومایہ اور نفرت انگیز لوگوں کی زبان استعمال کررہا ہوں مجھے اس کی عمر اور حلقہ اثر بڑھانے یا اس کے لہجے کو مالا مال کرنے کی کوئی خواہش یا اس کے لہجے کو مالا مال کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔۔۔۔۔ انگریزی میں لکھنا ایک طرح کی ثقافتی غداری ہے مستقبل میں اس غداری کو جل دینے کا طریقہ میں نے سوچا ہے ۔۔۔۔ میں یہ کام اپنی تحریر کو مکمل طور پر غیر اخلاقی اور تخریبی بنانے کا عزم رکھتا ہوں۔
لکداس وکرم سنہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقصان کیا ہے وقت پر چوک جانا
بھرتری ہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تمہارے الہام کا دھواں تمہارے سگریٹ کے دھویں میں آمیز ہو جائے تو مجھے یاد کرنا
امرتا پریتم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلامی کے بعد بے حیائی اور ڈھٹائی کی منزل آتی ہے اور اس منزل پر پہنچ کرہرقوم مردہ ہو جاتی ہے غلامی سے آزادی نصیب ہو سکتی ہے لیکن جب قوم غلامی کی ھدود سے گزر کر بے حیائی اور ڈھٹائی اور بے عملی کا ثبوت دینے لگے تو پھر وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکی۔
کرشن چندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے اور دونوں جگہ فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاہے اس کے لیے اس سے اچھا مقام کیا ہوسکتا ہے۔
بابو گوپی ناتھ۔ منٹو

بدھ, اگست 12, 2009

حیات ِجاوید . الطاف حسین حالی

سوانح حیات اس تصنیف کو کہیں گے جس میں کسی شخص کی زندگی کے واقعات مفصل طور پر بیان کیے گئے ہوں ۔ چمیبرس انسائیکلو پیڈیا میں سوانح نگاری کا اطلاق انسان اور افرادکی زندگی کی تاریخ ہی کیا گیا ہے اور اس کو ادب کی ایک شاخ کہا گیا ہے۔
ایک بڑے اور اچھے سوانح نگاری کو اپنے ہیروسے مکمل آگاہی ، اپنے ہیرو سے ہمدردی ،خلوص اور ہرقسم کے تعصبات سے بالاتر ہونا چاہیے ۔جبکہ ایک اچھی سوانح عمری میں جزئیات میں داخلی اور باطنی تصویر ، ابتدا ءسے لے انتہا تک جامعیت ، معنی خیز واقعات کا انتخاب جو کسی تحریک یا حرکت سے تعلق رکھنے والے ہوں، ہونے چاہیے۔
اردو ادب میں سوانح عمریوں کا ذخیرہ بہت کم ہے اور یہ صنف اردو میں انگریزی ادب کے حوالے سے داخل ہوئی ۔ اردو نثر کی ابتداءسے لے کر دور ِ متاخرین تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر سوانح عمری نہیں ہے۔ البتہ شعراءکے تذکرے موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ سیرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اولیاءکرام کے سوانح حیات ملتے ہیں ۔ اردو ادب میں سوانح عمر ی کی باقاعدہ ابتداءسرسید تحریک سے ہوئی ۔جس کا مقصد لوگوں کو اپنے بزرگوں کے کارناموں اور زندگی سے آگاہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ ان راستوں کو اپنا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کا سبب بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حالی ، شبلی اور سرسید وغیرہ نے اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں لکھیں ۔ لیکن ان میں سب سے بڑااور اہم نام مولانا حالی کا ہے جنہوں نے ”حکیم ناصر خسرو“، ” مولانا عبدالرحمن“”حیات سعدی “ ، ”یادگارِ غالب“، ”حیات جاوید “ جیسی سوانح لکھ کر اردو ادب کا دامن اس صنف سے بھر دیا۔ لیکن ان سوانح میں سب سے زیادہ شہرت حیات جاوید کے حصے میں آئی ۔
حیات ِ جاوید:۔
مولوی عبدالحق حیات جاوید کے بارے میں لکھتے ہیں
حیات ِ جاویدحالی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ اس میں صرف سرسید احمد خان کی سیرت ، اس کے حالات اور کارناموں کا بیان نہیں بلکہ ایک اعتبار سے مسلمانوں کے ایک صدی کے تمدن کی تاریخ ہے۔
ایک اور جگہ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سوانح نگاری کی مثال ہے
بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
یہ امر بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ان میں شاید” حیات جاوید“ بہترین سوانح عمری ہے۔
حیات ِ جاوید دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ پہلا حصہ جو کہ 300صفحات پر مشتمل ہے۔ سرسید کے خاندان اور ان کے خاندانی حالات کے لیے مخصوص ہے۔ جن میں ان کے بچپن کے حالات لکھے گئے ہیں۔ ان کے عفوان شباب کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس حصے میں ان کی ملازمت اور خطاب ِ شاہی کا بھی ذکر ہے ۔جبکہ ایام ِ غد ر میں سرسید کی انگریز دوستی کا بھی احوال موجود ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ جو کہ ٨٥٥ صفحات پر مشتمل ہے اس میں سرسید کے کاموں پر ریویو ہے۔ ان کی ترقی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں ۔ ان کی بے غرضی ، دیانت داری آزادی ، بے تعصبی ، اور وفاکیشی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیکنیکی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حالی کی یہ سوانح عمری پہلی دو سوانح عمریوں سے بہتر ہے۔کیونکہ اس میں فن سوانح نگاری کے تمام لوازمات کو برتا گیا ہے۔ آئیے اس کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

اتوار, اگست 02, 2009

پود ے۔۔۔کرشن چندر

رپورتاژ صحافتی صنف ہے اسے بطور ادبی صنف صرف اردو ادب میں برتا گیا ۔ لفظ (Reportage)لاطینی اور فرانسیسی زبانوں کے خاندان سے ہے جو انگریزی میں (Report)رپورٹ کے ہم معنی ہے۔ رپورٹ سے مراد تو سیدھی سادی تصویر پیش کرنے کے ہیں۔لیکن اگر اس رپورٹ میں ادبی اسلوب ، تخیل کی آمیزش اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی لمس بھی عطا کیا جائے تو یہ صحافت سے الگ ہو کر ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ادبی اصطلاح میں رپورتاژ ایک ایسی چلتی پھرتی تصویر کشی ہے جس میں خود مصنف کی ذات ، اسلوب ، قوتِ متخیلہ ، تخلیقی توانائی اور معروضی صداقت موجود ہوتی ہے۔ اکثر سفر ناموں کو بھی رپورتاژ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن سفر نامے کے لیے سفر کی ضرور ت ہوتی ہے لیکن رپورتاژ میں ایسا ضروری نہیں۔ مصنف چشم ِ تخیل کے ذریعے ہی رپورتاژ تخلیق کر سکتا ہے۔
اردو ادب کی پہلی باقاعدہ رپورثاژ کرشن چندر کی ”پودے “ہے اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس صنف کوآگے بڑھایا ۔1947کے واقعات نے رپورتاژ نگاری کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ فسادات پر لکھی جانے والی رپورتاژ ادبی شہکار ثابت ہوئیں۔ ان میں محمود ہاشمی کی رپورتاژ ”کشمیر ادا س ہے“ قدرت اللہ شہاب کی کاوش ”اے بنی اسرائیل“ ابراہیم جلیس کی ”دو ملک ایک کہانی“ رامانند ساگر کی ”اور انسان مر گیا “ اور جمنا داس اختر کی ”اور خدا دیکھتا رہا “ ایسی رپورتاژیں ہیں جو سیدھے سادے سچے واقعات پر دلگذار تبصرہ ہیں۔ ان واقعات میں صداقت اور افسانوی انداز دونوں موجود ہیں۔ اس کارآمد صفِ ادب کو تقسیم ہند کے واقعے کو بہت بھر پور طریقے سے پیش کرنے میں مدد دی۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...