اردو ادب کی پرچھائیاں برصغیر پاک وہند کے دوسرے علاقوں کی نسبت پختون خواہ میں ذرا دیر سے پڑیں ۔ اس کی وجوہات میں یقینا مقامی زبانوں پر توجہ ، پس ماندگی اور تعلیم کی کمی شامل ہے۔ تعلیم کی ترقی کے ساتھ ہی یہاں اردو زبان کی ترقی کی طرف توجہ شروع ہو گئی۔ 1903ءمیں بزم سخن کی نبیادرکھنے1913ءمیں اسلامیہ کالج کے آغاز اور دوسری علمی ، ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے باعث یہاں کے اہل علم و ادب اردو کی طرف رجوع کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ارد و کی ادبی نثر کاآغاز 1900کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں اردو کی ادبی نثر کا سراغ نہیں ملتا۔ 1900ءسے پہلے کے نثر ی نمونوں میں پیرروخان کی کتاب ”خیرالبیان “ کے کچھ حصے یہاں کے اخبارات ، کابل کی ڈائری، تاریخ ِ ہزارہ و تاریخِ ڈی آئی خان اور تاریخ چترال شامل ہیں ۔ لیکن اس میں اردو ادب یا اردو کی ادبی نثر کا سلسلہ مفقود ہے۔ لہذایہ بات وثو ق سے کہی جاسکتی ہے کہ ارد و کی ادبی نثر کا آغاز 1900ءکے بعد ہی ہوتا ہے۔
اردو کی ادبی نثر کےساتھ جو معاملہ رہا وہی معاملہ تقریباً اردو افسانے کے ساتھ بھی رہا۔ اس لیے یہاں افسانے کاآغازبھی ذرا بعد میں ہوا۔ اور 1947ءتک افسانہ کا کوئی بڑ ا نام سامنے نہ آسکا۔ 1947ءتک کا سرحد کاافسانہ کوئی مضبوط حوالہ نہیں رکھتا ۔ یہاں افسانہ نگاری کا آغاز 1914ءمیں ہوتا ہے۔ اور بقول فارغ بخاری اس کے آغاز کا سہرا ”نصیر الدین نصیر“ کے سر ہے۔ انہوں نے 1914ءمیں افسانہ لکھنا شروع کیا۔ اور ٠٣٩١ءتک افسانہ لکھتے رہے۔ ان کے افسانے مقصدی اور اصلاحی موضوعات پر مبنی ہیں۔ انداز تحریر صا ف اور سادہ ہے۔ افسانوں میں وعظ و نصیحت کارنگ نمایاں ہے۔ فنی لحاظ سے افسانوں میں خامیاں موجود ہیں ۔ ان کے افسانوں کا کوئی بھی مجموعہ شائع نہ ہو سکا البتہ انے افسانے ”نیرنگ خیال “ ، ”سرحد “ اور ”عالمگیر “ میں چھپتے رہے۔ جن میں ”جوالا مکھی“ ، ” سہاگن“ اور ”مولوی صاحب “ ، شہرت سے ہمکنار ہوئے ۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کاآغاز کرنے کے باعث نصیر الدین نصیر کا نام اہم ضرور ہے۔ مگر مجموعی طور پر وہ افسانہ کا کوئی بڑا نام نہیں ہے۔ افسانہ کے ابتدائی دور میں ایک نام عنایت علی شاہ کا بھی ملتا ہے۔ جن کا افسانہ ”ایک شاعر اور اس کا خواب“ ، ہائف پشاور جولائی 1925ءمیں شائع ہوا۔ جو رومانی فکر سے وابستہ ہے۔ کہانی کی نبیاد زیادہ تر روایتی واقعات اور غیر فطری عناصر پر رکھی گئی ہے۔ ا س کے علاوہ ان کا افسانہ ”خوبصورت لفافہ “ پختون معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔
1930ءتک یہ کچھ افسانہ نگار ملتے ہیں اس کے بعد آنے والے افسانہ نگاروں میں ، مبارک حسین عاجز، کلیم افغانی، رضاہمدانی ، نذیر مرزا برلاس، فارغ بخاری ،اور مظہر گیلانی کے نام اہم ہیں۔
”مبارک حسین عاجز کے افسانے ”اے مصور “”مجھے کسی کی تلاش ہے“، ”رنگین کلی “ ، ”احساسِ ندامت “ پاکستان سے پہلے شائع ہوئے ہیں اُن کے افسانوں پر رومانوی طرز فکر کے اثرات ہیں۔ اور فنی لحاظ سے کافی کمزور ہیں۔ ”کلیم افغانی “ کے ہاں اصلاح پسندی اور ترقی پسندی کے عناصر ملتے ہیں اس سلسلے میں ان کا افسانہ ”اشک ندامت “ مشہور ہے۔ رضاہمدانی نے اسلامی تاریخی واقعات کو افسانوی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے ان کے افسانے ”عہد “ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ نذیر مرزا برلاس کے ہاں چھوٹے چھوٹے واقعات سے کہانی بننے کا عمل نظرآتا ہے اور وہ تخیل کی مدد سے لے کر حقیقی کہانی کے نقش ابھارتے ہیں۔ لہذاد تخیل اور حقیقت کا امتزاج ان کے ہاں موجود ہے اس سلسلے میں ان کے افسانون میں ، ”معصومیت “ اور ”معصوموں کی دنیا ُ“ کے نام آسکتے ہیں۔
”فارغ بخاری “ سرحد کے پہلے صاحب ِ مجموعہ افسانہ نگار ہیں۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ”قدرت کا گناہ“ 1932ءمیں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں میں اصلاحی اور مقصدی عناصر موجود ہیں۔ اور ”ادب برائے زندگی “ کے نقطہ نظر کو سامنے لائے ہیں۔ لیکن فنی لحاظ سے بلند درجہ نہیں رکھتے ۔”مکافاتِ عمل “ ان کا اچھا افسانہ ہے۔
اسی زمانے میں ”مظہر گیلانی “ کے افسانوی مجموعے ”رنگین مشاہدے “ اور ”بدنصیب سادہ “منظر عام پر آگئے ۔ ان کے افسانوں پر داستانوی اثر زیادہ ہے۔ کہانی غیر فطری عناصر پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے افسانوں میں “ناگ رانی “ ، ”میر ی لاش “ ”سانپ کا انتقام “ مشہور ہیں۔ فارغ بخاری اور مظہر گیلانی کے افسانے بھی ادبی مقام حاصل نہ کر سکے ۔ لہٰذا ان کا یہ سفر آگے نہ بڑھ سکا۔ صوبہ سرحد کاافسانہ 1947تک کوئی بڑا نام پیدا نہ کر سکا اور نہ کوئی ایسا ادیب سامنے آسکا جس کی پہچان افسانہ سے وابستہ ہو۔
1947ءکے بعد البتہ کچھ ایسے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جنہوں نے اسی میدان کو اپنایا ۔ اور اس میں نام کمایا ۔ 1947ءکا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔ یہ اپنے ساتھ بہت سے خواب اور بہت سے عذاب لایاتھا۔ جس میں سب سے بڑا عذاب فرقہ ورانہ فسادات کا ہے۔ 1947ءکے بعد صوبہ سرحد کے افسانے میں بہت حوالے اور رجحانات اہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔