بدھ, اکتوبر 28, 2009

سبق پھر پڑھ

زمانہ طالب علمی سے ہی ہمارے کالج کی یہ روایت رہی ہے کہ تعلیمی سال کبھی بھی پورا نہیں ہونے پایا۔ اس لیے کہ قوم پرست سیاست کے اکھاڑہ ہونے کی وجہ سے یہاں کلاسوں کا بائیکاٹ اور سٹرائیکس ایک روایت رہی ہے۔ اس کالج میں ہم نے دیکھا کہ ہر سال گولیاں چلیں ، قتل ہوئے، ہاسٹلوں میں ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں جو قابل دست اندازی پولیس تھیں۔ مگر اس کے باوجود ایک نظام تھا جو چل رہا تھا۔ لولا لنگڑا ہی سہی۔ اساتذہ کی طرف سے یہ کوشش ہوتی تھی کہ جیسے تیسے ہو کورس کو مکمل کرایا جاسکے۔ اس طرح مارچ اپریل تک جیسے تیسے کالج کا نظام چلایا جاتا تھا۔ مگر اب کے سال رنگ آسمان ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ جو کہ اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ یوں یہ لولا لنگڑا نظام بھی نامعلوم مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسمبلیوں میں تقریریں کرنے والے ہمارے لیڈر کلاشنکوف کی بجائے قلم کی مانگ کرتے نظر آتے ہیں مگر اب جو چھوٹا موٹاسہارا کتاب کا باقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ خیر کوئی بات نہیں قوم کو کتاب کی نہیں ڈالر کی ضرورت ہے۔ اور وہ آرہا ہے بڑی بھاری مقدار میں۔ کتاب سے کیا ہوتا ہے وہ تو انسان کو اپنی رائے اور حق کے لیے لڑنے کا پیغام دیتا ہے جبکہ اس قوم میں ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگ ہیں۔ جو کتاب کے بغیر کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی آسانی سے گزار سکتی ہے۔ ملک بھر کے بہت تعلیمی ادارے دوبارہ سے کھول دیئے گئے ہیں لیکن جنوبی اضلاع میں بدستور تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ اس طرح مشکل ہے کہ اس تعلیمی سال کو چلایا جاسکے۔ اور اگر دکھاوے کے لیے تعلیمی ادارے کھول بھی دئیے گئے تو خوف کے سائے میں پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ہفتہ, اکتوبر 17, 2009

پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے

کچھ دن خاموشی کے بعد اب پھر سے وہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ عید کے بعد کا موسم شادیوں کا موسم تھا جس نے شہر میں خوشیاں بھر دی تھیں۔ اور ہم تو جیسے بھول ہی گئے تھے کہ کبھی اتنے مشکل دن بھی اس شہر نے دیکھے ہیں۔ مگر اچانک رنگِ آسمان بدلا اور یوں شہر کی شامیں پھر سے ویران ہوگئیں ہیں۔ کل سے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس دفعہ تو حد یہ ہوگئی کہ تمام موبائل سروسز بلاک کر دی گئی ہیں یہ تو اچھا ہوا پی ٹی سی ایل کے کنکشن ابھی بحال ہیں جس کی وجہ سے دنیا سے رابطہ ہے ورنہ شاید شہر سے باہر ہمارے عزیزوں پر کیا گزرتی۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ آپریشن جنوبی وزیرستان میں ہے اور کرفیو بنوں میں لگایا گیا ہے حالانکہ جنوبی وزیرستان کی سرحدیں ٹانک اور ڈی آئی خان سی ملتی ہیں۔ ویسے اس بات کا اندازہ تھا کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے اس لیے کہ کئی مہینوں سے ایسی زبردست تیاری ہو رہی تھی کہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرے خیال میں اتنی تیاری تو ہماری فوج انڈیا کے خلاف بھی نہ کرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہوگی اور کس کے حق میں فیصلہ کن ہوگی۔ دنیا کے مشکل ترین محاذ پر فوج لڑنے جارہی ہے اور اس محاذ پر لڑائی اپنے لوگوں سے ہو رہی ہے۔

شاید جو آگ ہم نے دوسروں کے لیے لگائی تھی آج ہمارا دامن اسی میں جھلس رہا ہے۔ دوسروں کے گھروں پر کمند اچھالنے والوں کے اپنے گھر آج غیر محفوظ ہیں۔ ہم وہی قوم ہیں جس کا اپنا کوئی قومی مفاد نہیں جو کچھ ڈا لرز کے عوض چند لمحوں میں بندوق اٹھا کر جہاد کا اعلان کر سکتی ہے اور پھر جب عالمی طاقتوں کی ترجیحات بدلتی ہیں تو ہمارا قومی مفاد تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر جہادی اور شدت پسند ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے جب کسی اور کی جنگ کو ہماری جنگ بنا دیا گیا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ کیا اس قوم کی اپنی سوچ بھی کہیں ہے جو اس کو اپنے فیصلے خود لینے کی قوت دے سکے۔ تو جواب ہمیشہ نفی میں آتا ہے۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...