اتوار, اکتوبر 21, 2012

علی گڑھ تحریک

سر سید احمد خان
برصغیر پاک و ہند میں 1857کی ناکام جنگ آزادی اور سکوت دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لئے جو کوششیں کی گئیں ۔ عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں
مقاصد
اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراءمیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کےکئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول ، مذہب کی عقل سے تفہیم ، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں ۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ، اردو ہندو مسلم تعلقات ، انگریز اور انگریزی حکومت ،انگریزی زبان ، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں ان آرا ءسے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں ۔

جمعرات, اکتوبر 11, 2012

انجمن پنجاب

سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی ، بنارس ،لکھنو ، شاہ جہاں پور ، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
انجمن کا قیام جنوری 1865ءمیں عمل میں لایا گیا۔ اس انجمن کے قیام میں ڈاکٹر لائٹر نے نمایاں خدمات انجام دیں ۔ لاہور میں جب گورنمنٹ کالج لاہور قائم ہواڈاکٹر لائٹر اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر لائٹر کو نہ صرف علوم مشرقی کے بقاءاور احیاءسے دلچسپی تھی بلکہ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ لارڈ میکالے کی حکمت عملی کے مطابق انگریزی زبان کے ذریعے علوم سکھانے کا طریقہ عملی مشکلات سے دوچار تھا۔ ان باتوں کی بناءپر ڈاکٹر لائٹر نے اس خطے کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کا فیصلہ کیا۔ اور انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کی داغ بیل ڈالی
 مقاصد
انجمن کے مقاصد میں قدیم علوم کا احیاء، صنعت و تجارت کا فروغ ، دیسی زبان کے ذریعے علوم مفیدہ کی اشاعت، علمی ادبی اور معاشرتی و سیاسی مسائل پر بحث و نظر صوبے کے بارسوخ طبقات اور افسران حکومت کا رابطہ ، عوام اور انگریز حکومت کے درمیان موجود بدگمانی کو رفع کرنا شامل تھا۔
    ان مقاصد کے حصول کے لیے مختلف مقامات پر مدارس ، کتب خانے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ رسائل جاری کئے گئے۔ سماجی اور تہذیبی ، اخلاقی ، انتظامی اور ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کے لیے جلسوں کا اہتمام کیا گیا۔
 رکنیت:۔
  انجمن پنجاب کے پہلے جسلے میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی وہ سرکاری ملازم ، روسا ءاور جاگیردار وغیر ہ تھے۔ لیکن جلد ہی اس کی رکنیت عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ اس انجمن کے اعزازی دائمی سرپرست پرنس آف ویلز تھے جب کہ سرپرست گورنر پنجاب تھے۔ اس انجمن کے اراکین کی تعداد 250 تھی ۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...