اردو ادب میں پہلا ناول ڈپٹی نذیر احمد کا مراۃ العروس ہے جو کہ 1869ءمیں لکھا گیا ۔ مراۃ العروس میں ناول کے سارے لوازمات تو شامل نہیں کیوں کہ نذیر کے سامنے ناول کا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا ۔ اُن کے ناولوں میں اہم پہلو مقصدیت کا ہے۔اس کے بعد ہمار ے پاس سرشار کا ناول ”فسانہ آزاد “ آتا ہے جس میں لکھنو معاشرت کی عکاسی نظر آتی ہے۔ پھر عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناولوں کے ذریعے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی ۔ جبکہ علامہ راشد الخیری بھی معاشرے کی اصلاح پر زور دیتے ہیں ۔
مرزا ہادی رسوا کاناول ”امرا ؤجان ادا“ کو اردو ادب کا پہلا مکمل ناول کہا جاتا ہے جس میں مربوط پلاٹ کے ساتھ ساتھ انسان کی داخلیت اور نفسیاتی پرتوں کو بھی بیان کیا ہے۔رسوا کے بعد پریم چند کا نام بڑا مضبوط ہے انھوں نے کل 13 ناول لکھے ۔ جس میں بیوہ ، بازارِ حسن ، اور میدان ِعمل مشہور ہوئے۔ پریم چند کے ہاں بھی مقصدیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کے ہاں جنسی موضوعات کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سوچ اور انقلاب کے موضوعا ت بھی ملتے ہیں۔
اس کے بعد ہمارے سامنے سجاد ظہیر کا نام آتا ہے جنہوں نے ایک ناول”لندن کی ایک رات “ لکھا۔ یہ اردو ادب کا پہلا ناول ہے جس میں شعور کی رو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بعد قاضی عبدالغفار کا نام آتا ہے جنہوں نے پہلی مرتبہ ناول کی ہیئت میں تبدیلی کی اور خطوط کی ہیئت میں ناول لکھے ان کے مشہور ناولوں میں سے ”لیلی کے خطوط “ اور ”مجنوں کی ڈائری “ شامل ہیں۔اس کے بعد کرشن چندر ہیں جنہوں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول بھی لکھے ان کے ناولوں میں”سڑک “، ”غدار “، ”جب کھیت جاگ اُٹھے“ ۔ ان کے ہاں خوبصورت انداز بیان تو موجود ہے لیکن کہانیاں زیادہ تر فلمی قسم کی ہیں۔ جس پرترقی پسند سوچ کا غلبہ ہے۔
عزیزاحمد نے بھی کئی ناول لکھے مثلاً ”خون “ ، ”مرمر“ ، ”گریز“ ، ”آگ“ اور ”شبنم “ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ناولوں میں جدیدانسان کے ذہن کے اندر جو انتشار ہے اُس کی عکاسی ملتی ہے۔ اس کے بعد عصمت چغتائی جنسی اور نفسیاتی حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ انھوںنے ”مصومہ “ ، ”ضدی “ ، ” ٹیڑھی لکیر“ اور ”سودائی “جیسے ناول لکھے ۔ان کے ہاں جنسی حوالے ضرور ہیں لیکن ان کے پس منظر میں ہمیشہ نفسیاتی اور اشتراکی نقطہ نظر کارفرمارہتا ہے۔
اس طرح ناول ارتقائی سفر کرتا ہوا 47 تک پہنچا جس میں ترقی پسند سوچ کے ساتھ اصلاح معاشرہ اور جنسی اور نفسیاتی رجحانات غالب رہے۔
1947ء کے بعد جو رجحانات ہمارے سامنے آتے ہیںاُن کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا لیکن اس سے پہلے ایک نام کاذکر بہت ضرور ی ہے جنہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے ایک بڑا ناول ” آگ کا دریا “ تخلیق کیا۔ وہ نام ہے قراة العین حیدر کا ۔ انہوں نے اس ناول میں قدیم ہندوئوں کے دور سے شروع کرکے ٧٤ کے بعد کے دور کوموضوع بنایا ہے۔ انگریز کا آنا اور پھر پاکستان کا بننا سب حالات اس ناول میں موجود ہیں موضوع کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا ناول ہے۔ آئےے اب پاکستانی ناول کا جائزہ لیتے ہیں ۔
فسادات اور ہجرت کا حوالہ
پاکستان بننے کے بعد ایک طرح سے خون کی ہولی کھیلی گئی بہت سے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا انسانیت کو پامال کیا گیا اور پھر ان تمام مصیبتوں کے بعد ہجرت کا واقعہ ایک طرف تو خون کی ندیاں دیکھنے کا تجربہ اور پھر دوسرا بڑا المیہ ایک تہذیبی حوالہ تھا۔ کیونکہ جن لوگوں کی نسلیں جہاں پر رہیں جہاں اُن کے تہذیبی روےے پروان چڑھے اُن کو اچانک کسی دوسری جگہ ہجرت پر مجبور کردینا لوگوں کے لیے معمولی بات نہیں ۔ اس کے پس منظر میں بہت سے دکھ ہوتے ہیں ایک تہذیب و تاریخ رہ جاتی ہے۔ لوگوں کے آباواجداد کی قبریں رہ جاتی ہیں۔ اور وہ نشانیاں جن کے تحت ان کی زندگی کا تسلسل قائم ہوا تھا وہ سب کہیں اور رہ جاتا ہے۔ یہ دونوں حوالے ہمارے ناول میں موجود ہیں۔ فسادات کے حوالے سے اُس دور کے ظلم و ستم اور قتل عام نے ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا ۔ اس دور میں فسادات میں ہونے والے ظلم وستم پر ایم اسلم نے ایک ناول ” رقص ابلیس “ ،نسیم حجازی نےک ”خاک و خون “ ، فکر تونسوی نے ”چھٹا دریا “ اور فیض رام پورنے ”خون اور بے آبرو “جیسے ناول لکھے ۔جس میں اُس دور میں انسان کی بربریت اور ظلم کی داستان کو ناول کی شکل میں پیش کیاگیا ۔ اس طرح اُس دور میں فسادات کے حوالے سے اور بھی بہت سے ناول لکھے گئے جو کہ ہنگامی نوعیت کے رہے۔ اور ہنگامی موضوعات میں فنی پختگی کم ہو جاتی ہے۔ اور جذباتی پن زیادہ اور بصیرت کم نظرآتی ہے۔ لیکن اس دور میں ایک ناول ایسا لکھا گیا جس میں ہنگامی موضوع ہونے کے باجود ناول میں خوبصورتی اور اسلوب کے حوالے سے بڑی حد تک بڑائی پیدا کی گئی ہے۔ او ر یہ ناول قدرت اللہ شہاب کا ”یاخدا “ ہے۔
”یاخدا “ 1948ءمیں لکھا گیا ۔ جس میں مرکزی کردار ”دلشاد “ کے زبانی پوری کہانی بیان کی گئی ہے۔ اُس کے ساتھ تقسیم کے بعد سکھوں نے کیا کچھ کیا اور پھر ہجرت کے بعد اُس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا تمام واقعات کو اُس کردار سے وابستہ کرکے ایک وسیع پس منظر میں ان حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی ہے۔ دلشاد کے ساتھ سکھوں نے جو کچھ کیا وہی لاہور والوں نے بھی کیا۔ قدرت اللہ شہاب نے فسادات کو دراصل ایک نئے انداز سے لیا اور تقسیم کے بعد بننے والے معاشرے کو لپیٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔
اس سلسلے کا ایک او ر اہم ناول خدیجہ مستور کا ”آنگن “ ہے۔ اس ناول میں انہوں نے ٧٤ سے پہلے اور بعد کے حالات کا ذکر کیاہے۔ ان کا موضوع ایک خاندان ہے ۔ یہ خاندان برصغیر کے مخصوص حالات سے کس طرح متاثر ہوا ۔ اس ایک خاندان کے توسط سے 47کے واقعات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اُن کے ہاں براہ راست فسادات ناول کا موضوع نہیں بنے بلکہ تمام حالات کو پس منظر میں رکھ کر اُس سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح یہ مسلمان خاندانوں پر اثرانداز ہوئے۔