میں نے پہلی بار ظفر علی خان ظفری کا نام بچپن میں سنا ۔ انتخابی پوسٹر پر اس شخص کی تصویر ایک سہمے ہوئے فرد جیسی دکھائی دے رہی تھی۔ جس کی بے حد گھنی بھوئیں چہرے پر شدید حیرت لیے ہوئے دیکھنے والوں کو بے وجہ ہنسنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ اُس دور میں ہم انتخابات کے مفہوم سے مکمل ناواقف تھے مگر انتخابی پوسٹر جمع کرنے کا شوق پتہ نہیں کہاں سے چڑھ دوڑا تھا۔ یونین کونسل کے ان انتخابات کے نجانے کتنے ہی پوسٹر ہم نے دیواروں سے اکھاڑ کر اور کچھ لوگوں سے مانگ تانگ کر جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے سب سے مخدوش اور اخباری کاغذ پر چھاپا گیا پوسٹر ظفر علی خان ظفری کا تھا۔ اس دور میں ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ ظفری علی خان ظفری انتخاب لڑ رہے ہیں اور سننے میں یہ بھی آتا تھا کہ اس کا مقابلہ ایک روایتی امیدوار کے ساتھ ہے جو سالوں سے اپنے اثررورسوخ اور طاقت کے بل پر انتخاب جیتتا آرہا ہے۔ مگر ظفری اس کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ اس کے جلسوں کا احوال بھی بڑوں سے معلوم ہوتا رہتا تھا سب بڑے اس کے جلسوں کو چٹخارے لے کر بیان کرتے اور ہمارے آنے پر وہ خاموش ہوجاتے ۔ ان کی اس خاموشی کی وجہ بعد میں معلوم ہوئی۔ انتخابات ہوئے اور ہمیں صرف انتا معلوم ہوسکا کہ ظفری خان ظفری کو گنتی کے چند ووٹ ہی مل سکے۔ جیت اسی امیدوار کی ہوئی جس کے مقابلے میں ظفری خان میدان میں اترے تھے۔
پھر جیسے جیسے عمر گزرتی گئی ہم پر ظفر علی خان ظفری کی زندگی کے چند دوسرے اہم باب کھلے ۔ پہلے تو جناب ایک نانبائی تھے دوسرا ان کی زبان میں لکنت تھی اور تیسرے ایک پیر میں بھی لنگڑ تھا۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود ہم نے دیکھا کہ نوے کی دہائی میں ہونے والے ہر صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن میں ظفری خان ظفری نے کاغذاتِ نامزدگی ضرور جمع کرائے۔ الیکشن کے دنوں میں ظفری خان ایک موسٹ وانڈڈ فیگر بن جاتے ۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ یہ شعر ہم نے پہلی مرتبہ اسی دور میں سنا تھا۔
یہ بازی موت کی بازی ہے یہ بازی تم بھی ہارو گے
ہر گھر سے ظفری نکلے گا تم کتنے ظفری مارو گے
ہر گھر سے ظفری نکلے گا تم کتنے ظفری مارو گے
ظفری خان کا انتخابی نشان جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ بندوق قرار پایا تھا۔ جلسوں میں وہ بندوق لے کر ہی سٹیج پر برآمد ہوتے ۔ ساتھ میں پس پردہ موسیقی کے طور پر ڈھول کی تاپ چلتی ۔ سب لوگ ناچتے گاتے ۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے اور پھر ظفری خان تقریر کرنا شروع کر دیتے ۔ اس تقریر میں وہ ان کے مقابلے میں کھڑے جاگیردار اور سرمایہ دار سیاسی قوتوں کی خوب سوشل بے عزتی کرتے ۔ ان کی کئی پشتوں تک کو نہ بخشتے۔ اس کے بعد دیگر شریکِ جلسہ بھی میدان میں کود پڑتے یہ سب ایسے سسٹم کے مارے لوگ ہوتے جن کو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضروت ہوتی تھی ۔ ان کی طرف سے بھی خوب کانٹے کی تقاریر ہوتیں۔ لوگ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ یوں شہر میں روز میلہ لگتا ۔ مگر جب انتخابات ہوتے تو ظفری خان کو وہی گنے چنے ووٹ ہی ملتے۔ پچھلے دو انتخابات میں ظفری خان بی اے کی شرط کی وجہ سے انتخاب میں حصہ نہ لے سکے۔ عمر ڈھل گئی بال سفید ہو گئے مگر ظفری خان آج بھی ان روایتی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار اور کمر بستہ ہیں۔ نہ ان کا حوصلہ پست ہوا اور نہ کبھی انہیں ڈر محسوس ہوا۔ میرے خیال میں لوگ آج بھی ظفری کو مسخرہ تصور کرتے ہیں ۔ اس کی باتوں کو ہنس کر ٹال جاتے ہیں شاید ظفری مسخرہ نہیں بلکہ وہ تو مزاحمت کی ایک بہت بڑی آواز ہے جو کہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور معذوری کے باجود سسٹم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید اس قوم کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو پاگل تصور کر لیتے ہیں۔ جبکہ تمام تر شعور کے باجود خود ہم میں کچھ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔