جمعہ, اگست 26, 2011

ستارہ یا بادبان (حسن عسکری)۔

 بقول پروفیسراحتشام حسین
” عسکری کی جاندار خوبصورت اور ادبی نثر نقد ادب کے متعلق بہت سے سوالات اُٹھاتی ہے۔ سوالوں کا جواب نہیں دیتی ، اپنا مبہم سا ذائقہ پیداکرتی ہے۔ توانائی نہیں بخشتی شک میں مقید کرتی ہے یقین کے دروازے نہیں کھولتی۔“         
 اگر نظری اور عملی تنقید میں حسن عسکری کو حالی کے بعد اردو کا سب سے بڑا اہم نقاد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تنقید میں ان کی رائے سے اختلافات چاہے جتنے بھی ہوں لیکن وہ تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی جن بلندیوں کو پہنچے وہ کم ناقدین کو نصیب ہے۔ اردو میں تجزیاتی تنقید ان کی بدولت آئی ورنہ تنقید کا عام طور پر طریقہ کار یہ رہا ہے کہ ہر ادیب و شاعر کی پانچ دس خصوصیات کو چن کر ان کا مقام متعین کیا جائے۔ ترقی پسند ناقدین نے سب سے پہلے اس روش سے انحراف کیا۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے میں میراجی نے مشرق و مغر ب کے مختلف شعراءپر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے اردو ادب میں نفسیاتی تنقید کی بنیاد پڑ ی ایک معاصر کی حیثیت سے عسکری بھی نفسیاتی تنقید سے متاثر ہوئے اور اس طرح اردو ادب کے قائدین کو عالمی ادب سے روشناس کرانے میں میراجی اور حسن عسکری کا حصہ سب سے زیادہ ہے بلکہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے عسکری ، میراجی پر بھاری ہیں۔
موضوعات کی رنگارنگی ، مطالعے کی وسعت اور گہرائی ، پاکستانی ادب کا نعرہ ، فوٹو گرافی سے لگائو، اسلامی ادب کی تحریک اور میر سے فراق تک پہنچا ہوا عشق حسن عسکری کو جاننے کے لئے افکار ہی کی یہ دولت کافی نہیں۔ بلکہ ناقدین میں ممتاز ، شیریں ، جمیل جالبی ، سلیم احمد، انتظار حسین اور مظفر علی سید تک عسکری سے متاثر ہیں۔ ان کے نظریات اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت ملتی ہے۔

جمعہ, اگست 05, 2011

اصول انتقادِ ادبیات (عابد علی عابد)۔

اردو ادب میں تنقیدی روایات جن معتبر ناقدین کی وجہ سے شعور و بصیرت سے مامور ہیں ان میں عابد علی عابد کا نام بہت نمایاں ہے ۔ اردو ادب میں انگریزی ادب کے گہرے اوروسیع مطالعے کے مالک بہت کم ناقدین نظرآتے ہیں ۔ اُن میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ، حسن عسکری، کلیم الدین احمد، اور عابد علی عابد کا نام اعتماد کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عابد علی عابد اس لحاظ سے دوسر ے ناقدین میں منفرد مقام رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں روایت پسندی نظر آتی ہے۔ وہ توڑ پھوڑ اور تخریبی رویہ جو کلیم الدین احمد، حسن عسکری اور احسن فاروقی کی تنقید میں موجود ہے عابد علی عابد کے ہاں معتد ل اور متوازن ہو جاتا ہے۔ اس بنا ءپر ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں،
” مشرقی تنقید سے عابد صاحب کو جو بے پنا ہ لگائو تھا وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ قدم قدم پر اس کی حمایت میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔“
روایت:۔
 عابد علی عابد نے اپنی تنقیدی بصیرت میں جہاں مغرب کے بھر پور مطالعے سے فائدہ اُٹھایا وہاں مشرقی اقدار کی پاسداری کا حق بھی ادا کیا ۔ ہماری تنقید میں ایک ایسا دور بھی آیا ۔ جب روایت اور بغاوت اور ان سے وابستہ مسائل پر گرما گرم بحثیں ہونے لگیں۔ ترقی پسند ادب میں پہلی بار ادب کے مادی تشکیل کا نظریہ پیش کیا گیا اور محنت کش طبقے کی حمایت میں ہنگامی ادب کو فروغ دیا گیا ( ہنگامی ادب سے مراد صحافتی ادب جو ایک دن کا ہوتا ہے) اب تنقیدی رویوں میں بھی روایت پسندی کو برا سمجھا گیا اور نئے انتہا پسند انہ رویے سامنے آئے۔ جن میں مردہ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا شدہ روایت کی تکذیب کی گی یعنی بر بھلا کہا گیا۔ ایسے حالات میں روایات کا دفاع کرنے والوں میں ٹی۔ایس ایلیٹ کی بھر پور چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ جو روایت کا حامی ہے اور روایت کے ذریعے نئے آنے والے ادب کی تشکیل و تعمیر کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
  بطور خاص اُن کا ایک مضمون Tradition and Individual Talentیعنی روایت اور انفرادی صلاحیت آج بھی روایت پسندوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ”اصول انتقاد ادبیا ت “ میں عابد علی عابد نے سب سے پہلے روایت اور روایت پسندی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے بعض جملے ایلیٹ کے مذکورہ مضمون کے بامحاورہ ترجمے معلوم ہوتے ہیں۔مثلا ایلیٹ نے لکھا ہے۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...