ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قصیدے کی تعریف یوں کرتے ہیں،
” لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔“
قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اُردو میں قصیدے کی ابتداء:۔
فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں
ذوق کی قصیدہ نگاری:۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق اس عہد کے شاعر ہیں جب اردو شاعری میں الفاظ و تراکیب کی شوخی اور چستی محاورہ اور روزمرہ کی خوبصورتی اور قدرت ِ زبان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس اعتبار سے ذوق کو اپنی زندگی میں ہی استادی کی خلعت فاخرہ نصیب ہوئی۔ ذوق نے اسی روش کے پیش نظر شاعری کو اپنی خصوصی لوازم سے معطر کیا اوراپنی شاعری کو فکر و خیال کی توانائیوں اور خوبصورتیوں سے مرصع کیا۔
قصیدہ نگاری کے فن سے ذوق کا نام الگ کرنا ایسا ہی مشکل ہے جس طرح گوشت سے ناخن کا جدا کرنا محال ہے۔ قصید ہ نگاری سے ذوق کا نام چسپاں ہے اگر ذوق کو قصیدہ سے قصید ہ کو ذوق سے علیحدہ کردیا جائے تو یہ فن خزاں کی طرح ویران نظرا ئے گا۔
ذوق نے اپنی قصیدہ نگاری کی مشعل کو سودا کے چراغ سے روشن کیا ہے ۔ ذوق جب اُنیس سال کے تھے اسی وقت سے وہ ایک مستند قصیدہ گو شمار کئے جاتے تھے چنانچہ اس عمر میں انہوں نے اکبر شاہ ثانی کی تعریف میں ایک قصیدہ کہاا س کا مطلع ہے۔
اُردو میں قصیدے کی ابتداء:۔
فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں
ذوق کی قصیدہ نگاری:۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق اس عہد کے شاعر ہیں جب اردو شاعری میں الفاظ و تراکیب کی شوخی اور چستی محاورہ اور روزمرہ کی خوبصورتی اور قدرت ِ زبان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس اعتبار سے ذوق کو اپنی زندگی میں ہی استادی کی خلعت فاخرہ نصیب ہوئی۔ ذوق نے اسی روش کے پیش نظر شاعری کو اپنی خصوصی لوازم سے معطر کیا اوراپنی شاعری کو فکر و خیال کی توانائیوں اور خوبصورتیوں سے مرصع کیا۔
قصیدہ نگاری کے فن سے ذوق کا نام الگ کرنا ایسا ہی مشکل ہے جس طرح گوشت سے ناخن کا جدا کرنا محال ہے۔ قصید ہ نگاری سے ذوق کا نام چسپاں ہے اگر ذوق کو قصیدہ سے قصید ہ کو ذوق سے علیحدہ کردیا جائے تو یہ فن خزاں کی طرح ویران نظرا ئے گا۔
ذوق نے اپنی قصیدہ نگاری کی مشعل کو سودا کے چراغ سے روشن کیا ہے ۔ ذوق جب اُنیس سال کے تھے اسی وقت سے وہ ایک مستند قصیدہ گو شمار کئے جاتے تھے چنانچہ اس عمر میں انہوں نے اکبر شاہ ثانی کی تعریف میں ایک قصیدہ کہاا س کا مطلع ہے۔