اتوار, ستمبر 18, 2011

ہجویاتِ سودا

بعض لوگ ہجو کو ایک مستقل صنف سخن سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قصیدے ہی کی ایک قسم ہے۔ جو نظم کسی کی مذمت برائی یا عیوب کے بیان میں لکھی جائے وہ ہجو یا ہجویہ قصیدہ کہلاتی ہے۔ نفرت ، اور غصہ کا بے محابا اظہار ہجو کی اساس ہے۔ جیسے تحسین و پسندیدگی ، قصیدہ نگاری سے مخصوص ہیں ۔ لیکن جہاں قصیدہ ایک مخصوص ہیئت کا پابند ہے، ہجو کے لئے کوئی ہیئت متعین نہیں۔ چنانچہ ہجو کی شناخت کا واحد وسیلہ موضوع کی تئیں شاعر کا رویہ ہے۔ اگر شاعر کسی فرد، واقعے یا شے کی تذلیل کرتا ہے تو ہجو ہوگی۔ خواہ اس منفی ردعمل کے اظہار کے لئے شعری ہیئتوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کیا گیاہو۔ہجو نگار اپنے مخالف کو تباہ و برباد کردینا چاہتا ہے ۔ ہجو ایسی ہو جو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس کی اتنی تذلیل کر دے کہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔ ہجو نگاراپنی نفرت اور غصہ پر قابو رکھنے کا اہل نہیں ہوتا ۔
 اردو میں شمالی ہند کی اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہجو گوئی کی ابتداءہوئی ہے۔ اس سلسلے میں میر جعفر زٹلی غالباً پہلے ہجو گو شاعر ہیں۔ لیکن ہجو یہ گوئی کو باقاعدہ فن کی صورت سودا ہی نے دی۔
ہجویات سودا:۔
 بقول رشید احمد صدیقی
”سودا کو ہجو ہجا میں نہ صرف فضل و تقدیم حاصل ہے بلکہ ان کے کلام سے طنزیات کی بہترین استعداد بھی نمایاں ہے۔“
 اردو میں باقاعدہ طور پر ہجو گوئی کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ سودا نے اپنی ہجووں کے لئے قصیدہ ، مثنوی ، قطعہ، غزل ، رباعی ، ترکیب بند، ترجیع بند، غرض سبھی اصناف سخن استعمال کئے ہیں۔سودا نے فارسی ہجویات کی روایت کے مطابق ہر قسم کی لعن طعن ، طنز و تشنیع ، سب و شتم اور فحاشی سے کام لیا ہے اور خودہی دعویٰ کیاہے کہ اس فن میں خاقانی اور عبید زاکانی بھی ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ کسی کے ہجو لکھنے پر اتر آتے تو اسے بے عزت ہی کرکے چھوڑتے ۔ آزاد ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں کہ ”غنچہ“ نام ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں رہتا تھا۔ اور ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے ارے غنچے لا تو قلم دان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں ، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے کہ شیطان بھی امان مانگے۔

موضوعات :۔
  خلیق انجم نے سودا کی ہجویات کو پانچ مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیاہے۔
١) وہ ہجویں جن کی بنیاد محض ذاتی بغض و عنا د پر ہے۔ یا جن کا مقصد کسی سے چھیڑ چھاڑ کرنا ہے۔
 ٢) اخلاق کی اصلاح کے لئے لکھی جانے والی ہجویں
 ٤) وہ ہجویں جو ادبی اختلاف یا معاصرانہ چشمکوں کی وجہ سے لکھی گئیں ہیں
 ٥) وہ ہجویں جن میں اپنے دور کی سیاسی ابتری اور مالی بدحالی کامضحکہ اُڑیا گیا ہے۔
انہی موضوعات کی روشنی میں ہم سودا کی ہجویات کا جائزہ لیتے ہیں،
میر کی ہجو:۔
 سودا نے میر تقی میر کی ہجو میں جو قطع کہا ہے وہ کامیاب اور فنکارانہ طنز کی بہترین مثال ہے نو اشعار کی اس ہجو میں جو واقعہ ہوا ہے اس کا انحصار قطع کے آخری شعر پر ہے۔
  ہر ورق پر ہے میر کی اصلاح 
لو گ کہتے ہیں سہو کاتب ہے
اس قطع میں فنی تعمیر اتنی منظم اور اشعار ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہیں کہ اس آخری شعر کا وار یقینی ہو جاتا ہے۔ بغیر سخت الفاظ استعما ل کئے ایسی ہجو خود سودا نے دوسری نہیں کہی۔
 اس کے علاوہ تمام افراد کی ہجوئوں میں سودا کا لہجہ اتنا تیز اتنا تند اور اتنا سفاک ہے کہ سودا کے غصہ کی پوری کیفیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ ان ہجوئوں میں جہاں کہیں مخالف کانام آتا ہے وہاں ضرور ایسی کوئی صفت استعمال ہوتی ہے جس سے اس کی تذلیل کا پہلونکلتا ہے اور جب غصہ اپنی انتہا پر ہو تو سودا گالیوں کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
ہجو شیدی فولاد خان کوتوال:۔
 تہذیبی و معاشرتی انتشار پر سودا کی ہجو”ہجو شیدی فولاد خان کوتوال“ لا جواب ہے۔ فولاد خان کوتوال کی ہجو میں سودا نے اپنے زمانے کے انتشار اور طوائف الملوکی کا نقشہ بہت عمد ہ کھینچا ہے۔ بدقماش چور اچکے یہاں تک نڈر اور آزاد ہوگئے ہیں کہ کوتوال ان کی خوشامد کرتا ہے۔ اور وہ خود کوتوال کی پگڑی کی قیمت لگاتے ہیں ۔ فولاد خان شہر کی چوریوں میں چوروں کے ساتھ شریک رہتا ہے۔چنانچہ بادشاہ کو جب اس کی خبر ملی تو فولاد خان اور اس کا بیٹا عتیق اللہ خان گرفتار ہوئے ۔ جب شہر کی صورت حال یہ ہوکہ محافظ خود ڈاکے ڈالتا ہو تو مال و اسباب سے لے کر عزت و آبرو تک کچھ محفوظ نہیں تو ایسے میں سودا نے اس صورت حال پر یہ ہجو لکھی۔
 ان سے رشو ت لئے یہ بیٹھا ہے                                
اس کے دل میں یہ چور بیٹھا ہے
 بازو کا مفسروں کے زور ہے یہ                     
  چو ر کا بھائی گھٹی چور ہے یہ
 فولاد خان چوروں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔           
 سن لو چورو یہ مختصر قصہ ِ                    
صبح کو بھیج دیجیوحصہ
مثنوی کی ہیئت میں ہجو:۔
سودا کی ایک ہجو مثنوی کی ہیئت میں ہے اور ایک قصہ کے ذریعے بخل کی قبح ترین صورت کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس میں سودا نے تضحیک و تحقیر کے لئے بخل کے عجیب وغریب واقعات کا بیان ہے۔ ایک بخیل شخص کے فیاض بیٹے نے اپنے دوستوں کی دعوت کی ۔ بخیل اس فیاضی سے اس قدر چراغ پا ہو ا کہ بیوی کو طلاق دینے اور بیٹے کو عاق کرنے کی ٹھان لی ایسی اولاد جو اپنے اجداد کی کمائی اس طرح خرچ کرے ۔ کسی طرح گھر میں رہنے کے لائق نہیں ۔
 یارو مجھے سے تو لا ولد بہتر
  میر ا بیٹا اور اس قدر ابتر
 اس کا دادا بھی گرچہ تھا عیاش
اس سلیقے سے پر کرے تھا معاش
 جو کوئی اس کے گھر میں نوکر تھا 
 رات کو اس پہ یہ مقرر تھا
پھرتا وہ ٹکڑے مانگتا گھر گھر
لاتا آقا کے جو آگے جھولی بھر
اچھے چن چن کے آپ کھاتے تھے
برے تنخواہ میں لگاتے تھے
سودا نے راجہ نرپت سنگھ کے ہاتھی کی ہجو کہی ہے ۔ ہاتھی کا نقشہ یہ ہے کہ ہاتھی کمزور اور لاغر ہے۔ سودا اس ہاتھی کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں،
 سمجھنا فیل اسے دیوانہ پن ہے   
 کسی مدت کا یہ بام کہن ہے
 نمودار ا س پر استخواں ہے
 گویا ہر پسلی اس کی نردباں ہے
میر ضاحک کی ہجو:۔
 ہجو کی ایک قسم مبالغہ آرائی ہے۔ بعض واقعات ، مناظر یا تصویریں ہماری توجہ مبذول نہیں کر سکتی ۔ ہجو نگار ان واقعات وغیر ہ کو پیش کرنے میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔ تصویر کے بعض حصوں کو نمایاں کرنے کے لئے مصور کو تیز اور شوخ رنگ استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ ہجو نگار کے شوخ رنگ مبالغہ آمیز لفظ ہیں ۔ لیکن یہاں بھی اعتدال شرط ہے۔ سودا یہاں بھی اعتدال کی حدود سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ اور یہاں تک کہ تخیل کی پرواز میں ان کا مبالغہ غلو کی حد تک چا پہنچتا ہے۔مثلاً میر ضاحک کی ہجو لکھتے ہوئے اس کے زیادہ کھانے کاذکر یوں کرتے ہیں
 گھر میں اب جس کے دیگچہ کھڑکے
  در پہ اس کے یہ بیٹھے یوں اُڑ کے
میرضاحک ایک دعوت پر مدعو ہیں ۔ انہوں نے اپنے میزبان دوست سے پوچھا ۔ کہو کیا پکوایا ہے دوست نے جواب دیا ۔قیمہ ، پلائو ، بریانی یہ سنتے ہی میر ضاحک کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا ۔ دوڑا باورچی خانے کی طرف ۔ سودا نے اس منظر کی خوب مبالغہ آمیز تصویر کاری کی ہے۔
یہ سخن سن کے وہ مثل شہاب                                            
دوڑا مطبخ کی سمت ہو بے تاب
گوشت ، چاول مصالحہ ترکاری                                          
سب سمیٹے اس نے ایک ہی باری
ہجویہ قصیدہ ”تضحیک روزگار“:۔
 شخصی ہجوئوں سے قطع نظر”تضحیک روزگار“ سودا کا مشہور ہجویہ قصیدہ ہے۔ جس میں بظاہر ایک گھوڑے کی ہجوکی گئی ہے۔ لیکن اس کا مقصد مغل سلطنت اور بالخصوص اس کے عسکری نظام کی کمزوریوں پر طنز ہے۔ سودا نے یہ قصیدہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے ( 1750ءسے قبل) میں کہا۔ جس کی شہادت یہ ہے کہ نکات الشعراءمیں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس وقت تک انہوں نے وہ تمام مشہور قصیدے اور ہجویات نہیں لکھی تھیں جن کی بناءپر سودا کو بعد کے زمانے میں شہرت ملی۔ لیکن اس پہلے دور کے ہجویہ قصیدے میں ، سودا نے جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے خود سودا کی دوسری ہجوئوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
 گھوڑا اور تلوار ، مغل عسکری نظام کے دو بنیادی حوالے ہیں ۔ خصوصاً گھوڑاجس کی قوت پر پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے مقامی فوجوں کی شکست دی تھی اور جو اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک فوجی خدمات میں مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ مغل سلطنت کے سےاسی و تہذیبی زوال کے نتیجہ میں ان کا عسکری نظام کمزور ہو کر منتشر ہو نا شروع ہوا، افواج بکھر گئیں ، درباروں سے منسلک افواج کو تنخواہ دینے کے لئے شاہی خزانے میں روپیہ نہیں رہا۔ سپاہیوں نے تنگ آکر تلواریں کھول ڈالیں اور رزق کی تلاش میں دوسرے کاموں میں لگ گئے ۔ جہاں نواب کے پاس خود رزق کا کوئی معقول ذریعہ نہ بچا ہو وہاں وہ گھوڑ ے کو کیا کھلا سکتا تھا ۔نتیجتاً طاقت و شوکت کے ضامن گھوڑے کی حالت بھوک سے لاغری کے سبب خستہ ہو گئی ۔ سودا نے قوت و جلال کے اسی بھوک سے نڈھال لاغر اور خستہ حال نشان کو اپنی ہجو کا موضوع بنایا ہے۔
 اس ہجو کا گھوڑا دراصل آخری دور کا استعارہ ہے۔ جو اس دور کی سیاسی اور معاشی بدحالی کا ترجمان ہے۔ قصیدے کے آغاز میں سودا بتاتے ہیں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے جن امراءکے پاس عراقی اور عربی نسل کے گھوڑے تھے۔ اب ان کا یہ حال ہے کہ بچاروں کے پاس جوتیاں مرمت کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں ۔ موچی سے ادھار مرمت کراتے ہیں ۔ اس سے مغل امراءکی تباہ حالی معلوم ہوتی ہے کہ عوام ہی نہیں خواص بھی سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہو چکے تھے۔
اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے                              
 موچی سے کفشِ پا کو گھٹاتے ہیں وہ ادہار
 اس کے بعد وہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ایک مہربان دوست بھی ہیں جو سرکار سے سو روپیہ پاتے ہیں ۔ ان کے پاس ایک گھوڑا ہے۔ مگر اس کی حالت ناگفتہ ہے۔ گھوڑے کے کھانے کے لئے دانہ اور گھاس نہیں ہے اور رکھوالی کے لئے سائیس موجود نہیں ۔ خوراک نہ ملنے سے وہ زمین پر بیٹھنے اور اُٹھنے کے قابل نہیں۔ اس کے فاقوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔ اگر گھوڑا لے کر بازار سے گزریں تو قصائی پوچھتا ہے کہ ہمیں کب یا د کرو گے۔ فاقوں کی کثرت ہی سے گھوڑا اتناناتواں ہو چکا ہے۔ کہ اس میں ہنہنانے کی طاقت بھی نہیں ہے۔ اس ناتوانی کے باعث اب ہوا بھی اسے اڑا کے لے جا سکتی ہے۔ اس کے جسم پر زخم ہیں ۔ جن پر جابجا مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ خلق خدا گھوڑے کی اس حالت پر دعا کرتی ہے کہ یہ گھوڑا گم ہو جائے یا مرجائے یا اسے چور لے جائیں۔
  ناطاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں   
 فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
فاقوں سے ہنہنانے کی طاقت نہیں رہی
گھوڑی کو دیکھتا ہے تو پاد ے ہے بار بار
 قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امید وار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں چمار
 اس کے بعد سودا بتاتے ہیں کہ ایک روز مجھے کہیں جانے کے لئے گھوڑے کی ضرورت پڑی ۔ میں اسی مہربان کے پاس پہنچا انہوں نے عزت سے فرمایا کہ یہ گھوڑا اب سواری کے قابل نہیں رہا۔ یہ تو گدھے سے بدتر ہے۔ زمین پر میخ کی طرح قائم ہے۔ یعنی ہلنے کی طاقت نہیں رہی ہے۔ اسکے تمام دانت اڑ گئے ہیں ۔ یہ گھوڑا بہت بوڑھا ہے۔ شیطان جنت سے اسی پر سوار ہو کر نکلا تھا۔ اب اس کی حالت کمزوری کی وجہ سے اسپ خانہ شطرنج کی ہو چکی ہے کہ کسی مدد کے بغیر نہیں چل سکتا۔
 اب گھوڑا میدان جنگ کے لئے نکلتا ہے۔ وہ امیر بتاتا ہے کہ جس دن مرہٹوں نے دہلی پر حملہ کیا ۔ تو مجھے نقیب نے اطلاع دی کہ گھر میں کوڑیاں بہت کھیل چکے ہو۔ اب وقت ِ کارزار ہے۔ باہر میدان میں پہنچو۔ اس بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں امراءجنگی مشقوں کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر تفریح کے لئے کوڑیاں کھیلا کرتے تھے ۔ گھوڑے نے امیر کی بہت سبکی کرائی ۔ گھوڑا ایک دم آگے نہ بڑھتا گیا۔ لوگ اکھٹے ہوگئے۔ او رآواز یں کسنے لگے کہ اسے پہیے لگا لو۔ پھر چل پڑے گا۔ غرض لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے لگے ۔
دلی تک آن پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹا                    
مجھ سے کہا نقیب نے آکر ہے وقت کار
جس شکل سے سوار تھا اس دن میں کیا کہوں
 دشمن کو بھی خدا نہ کرے یوں ذلیل و خوار
  اس مضحکے کو دیکھ ہوئے جمع خاص و عام
اکثر مدبروں میں سے کہتے تھے یوں پکار
 پہیے اس لگائو کہ تا ہوئوئے یہ رواں
یا بادبان باندھ پون کے دو اختیار
 اس کے بعد سودا میدانِ جنگ میں اٹھائی جانے والی خفت کا ذکر کرتے ہیں کہ گھوڑے کے ہاتھوں ذلت اُٹھا کر بھاگنے کی ضرورت پیش آئی ،
دست دعا اُٹھا کے میں پھر وقت جنگ میں   
کہنے لگا جناب الٰہی میں یوں پکار
 پہلا ہی گولا چھوٹتے اس گھوڑے کے لگے
 ایسا لگے یہ تیر کہ ہووے جگر کے پار
 گھوڑا کہ بس کے لاغر و پست و ضعیف و خشک      
 کرتا یوں خفیف مجھے وقتِ کارزار
جب دیکھا میں کہ جنگ اب یاں بندھی ہے مشکل
 لے جوتیوں کو ہاتھ میں گھوڑا بغل میں مار
دھر دھمکا واں سے لڑتا ہوا شہر کی طرف
القصہ گھر میں آن کے میں نے کیا قرار
  ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اس ہجو کے بارے میں فرماتے ہیں۔
” سودا کی غیر شخصی ہجوئوں میں سب سے کامیاب اور پر لطف قصدہ ”تضحیک روزگار ‘ ‘ ہے ۔ جو اگرچہ ایک بخیل امیر کے فاقہ زدہ گھوڑے کی ہجو ہے۔ لیکن اس دور کے فوجی نظام کی خرابی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ مبالغہ ظرافت نے اس ہجو کو دلچسپ بنا دیا ہے
 یہ اور اس قسم کی دوسری نظمیں یوں پہلی نظر میں تفریحی معلوم ہوتی ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دورِ آخر کے زوال و انحطاط کی دکھ بری داستانیں ہیں ۔ جن سے ایک زوال پذیر اور سیاسی انتظامی اعتبار سے تباہ شدہ اور ناکارہ قوم کی تباہی اور بد نظمی کا منظر بڑے دلچسپ مگر خوفناک انداز میں پیش کرتی رہیں گی۔
مجموعی جائزہ:۔     
  اس میں شک نہیں کہ سودا نے اپنی ہجوئوں میں مخالف کے انتہائی روشن پہلوئوں پر بھی سیاہی پھیر دی ہے۔ جیسے کہ قصائد میں اپنے بعض انتہائی کمزور ممدو حین کو سکندر و دارا کا ہم پلہ ثابت کر دکھایا ہے۔ لیکن مقاصد کے اختلاف کے سبب سودا کے قصید ے فنی کمال کی جس سطح مرتفع تک بلند ہو گئے ہیں ۔ ہجوئوں میں ماسوائے تضحیک روزگار اور ہجو میر تقی میر وہ فنی ارتکاز نہیں ملتا ۔ اس کے باوجود یہ نظمیں اپنے مقصد میں اس اعتبار سے بہت کامیاب ہیں کہ سودا نے جس کی ہجو کہہ دی اسے دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
 مری یہ فکر سخن منصہ زمانہ پر  
کرے ہے مدح و مذمت میں جوہر ارزانی
 ضیائے مہر پہ کھینچے ہے مہر تارےکی
   کر ہے ظلمت حیواں کو پل میں نورانی

4 تبصرے:

  1. بہت خوب وہاب اعجاز صاحب، نہایت عمدہ مضمون ہے۔ میر ضاحک کی ہجو تو آج بھی کچھ احباب کی 'مدح' میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. باقی تو ٹھیک حوالہ جات کدھر ہیں بھائی

    جواب دیںحذف کریں

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...